Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔
(8 ۔ 9) ۔ اللہ کے حکم سے قیامت کے دن عملوں کو ایک طرح کا جسم دیا جاوے گا جسم میں نیکی کے سب سے ایک بھاری پن اور بدی کے سبب سے ایک ہلکا پن ہوگا غیر جسمی چیزوں کے لئے ایک طرح کا جسم پیدا ہوجانا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ بلا اور دعا آپس میں لڑتے ہیں یا قبر میں نیک عمل نیک صورت بن کر اور بدعمل بری صورت بن کر مردہ کے پاس آتے ہیں یہ قدرت الٰہی سے کچھ بعید نہیں ہے اس واسطے یہ تاویل کرنا کہ صاحب عمل لوگوں کا جسم تولا جاویگا ایک بعید تاویل ہے اور بعضے مفسروں نے صحیحین کی اس حدیث سے کہ قیامت کے دن بڑے بڑے موٹے اور جسیم آدمی ہوں گے جو اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کی برابر نہ جچیں گے صاحب عمل کے تولنے کی تائید جو نکالی ہے وہ تائید بھی تکلیف سے خالی نہیں کیونکہ اس حدیث میں ان لوگوں کی قدر منزلت اللہ کے نزدیک ملکی ہونے کا ذکر ہے جسموں کے تولنے سے اس حدیث کو کچھ تعلق نہیں نہیں اور بعضے مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ عمل نہیں تولے جاویں گے بلکہ نامہ اعمال کے کا عذر تولے جاویں گے اور اپنے اس قول کی تائید میں ترمذی اور مسند امام احمد ابن حنبل کی وہ حدیث پیش کی ہے کہ کلمہ توحید کے ثواب کا کاغذ کا ٹکڑا بہت سے بدیوں کے دفتروں سے بھاری رہے گا اس میں بھی عمل کے ثواب کا وزن ہے ورنہ کاغذ کا خالی ٹکڑا کیا بھاری ہوسکتا 6 ؎ ہے ترمذی ‘ ابوداؤد وغیرہ میں ابودرداء کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میزان میں خوش اخلاقی بڑی بھاری چیز ٹھہرے گی اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے اس صحیح حدیث سے عملوں کے تولے جانے کی پوری تائید ہوتی ہے اب عملوں کے تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پاویں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بہاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے۔ دوزخ میں جانے کے بعد جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا آخر کو وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں جاویگا چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید ؓ حدری کی حدیث اس باب میں گذر چکی ہے میزان میں جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے وہ لوگ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول کے موافق اعراف پر جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ اخیر تک ٹھہرائے جاکر پھر جنت میں جاویں گے اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان میں ایک دیوار ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے قیامت کے تین مقام جو بڑے خوف اور بڑی پریشانی کے ہیں ان میں ایک مقام تو یہی اعمال کے تولے جانے کا ہے دوسرا مقام نامہ اعمال کہ دائیں یا بائیں ہاتھ میں آنے کا ہے تیسرا مقام پل صراط پر گذرنے کا ہے ابوداؤد میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے جس میں ان تینوں مشکل کا ذکر ہے اگرچہ ابوداؤد اور حافظ عبدالعظیم منذری دونوں نے اس حدیث کی سند کا کچھ حال بیان نہیں کیا لیکن اس حدیث کی سند معتبر ہے کیونکہ یہ حدیث حسن بصری (رح) کی روایت سے ہے جس کو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے ملاقات ہوئی ہے اس صورت میں یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اس لئے کہ جن دو شخصوں کا زمانہ ایک ہو ان کی باہمی روایت امام مسلم کے نزدیک صحیح ہے یہاں تو حسن بصری (رح) اور حضرت عائشہ ؓ کی ملاقات بھی ثابت ہوئی اس حدیث کی سند معتبر معلوم ہوتی ہے :۔
Top