Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
وہ جو آسمانوں اور زمین اور جو ان دونوں میں ہے سب کا مالک ہے بڑا مہربان کسی کو اس سے بات کرنے کا یارا نہ نہ ہوگا
37۔ 40۔ اوپر ذکر تھا کہ جس شخص کو نیک عملوں کے بدلہ میں جنت ملے گی وہ محض عطائے الٰہی کے طور پر ملے گی ان آیتوں میں اس بیشمار عطا کی صراحت یوں فرمائی کہ زمین آسمان جنت اور نیکی کے ثواب کے درجہ کو بڑھانا سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو جو کچھ چاہے عطا کے طور پردے دیوے اس کی بارگاہ میں کچھ کمی نہیں۔ وہ رحمن ہے اس کی رحمت بندوں پر عام ہے پھر فرمایا باوجود اس عام رحمت کے اس کا جلال بھی ایسا ہے کہ قیامت کو جب اس سے آمنا سامنا ہوگا تو بغیر اس کے حکم کے اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا۔ حضرت عبد اللہ 3 ؎ بن عباس ؓ کا مشہور قول ہے کہ اس آیت میں روح سے مراد بنی آدم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حشر کے دن بنی آدم اور ملائکہ اللہ کے رو برو صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ صحیح حدیثوں کے موافق یہ ذکر اس وقت کا ہے جب اللہ تعالیٰ نیک و بد کے فیصلہ کے لئے آسمان سے زمین پر میدان محشر میں نزول فرمائے گا اور لوگ سورج کی گرمی اور پسینہ سے گھبرائیں گے اور حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک سب انبیاء کے پاس حساب و کتاب شروع ہوجانے کے لئے جائیں گے اور کسی نبی کی جرأت اور طاقت اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی نہ ہوگی آخر خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کو بات کرنے کا حکم ہوگا اور آپ ﷺ کی شفاعت سے سب لوگوں کا حساب و کتاب شروع ہوگا۔ چناچہ اس کا ذکر تفصیل سے اوپر گزر چکا ہے۔ وقال صواباً کے یہ معنی ہیں کہ جس طر اس دن بغیر حکم اللہ تعالیٰ کے اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا اسی طرح اس کی مرضی کے خلاف کوئی کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کی مرضی کے خلاف اپنے باپ آذر کی بخشش یا تخفیف عذاب کی سفارش نہ کرسکیں گے سورة انبیاء میں ولا یشفعون الا لمن ارتضی۔ وقال صوابا کی گویا تفسیر ہے ہے پھر فرمایا جس دن کے حساب و کتاب اور عذاب سے ان لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اس دن کا پیش آنا ایسا یقینی اور اس کی صداقت ایسی ایک حق بات ہے کہ جس کو کوئی جھٹلا نہیں کستا کس لئے کہ جن آیات قرآنی میں قیامت کے آنے کا ذکر ہے ان آیتوں کو یہ قیامت کے منکر لوگ محض ہٹ دھرمی سے جھٹلا رہے ہیں اگر اس ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اپنی آنکھوں کے سامنے کے انتظام دنیا پر بھی یہ لوگ ذرا غور کریں تو ان کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آسکتی ہے کہ خود موجودہ انتظام اس کا مقتضی ہے کہ دنیا کے ختم کے بعد قیامت جیسے ایک دن کی سخت ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے نیک لوگ ایسے ہیں کہ عمر بھر دنیا کی اکثر راحتوں سے محروم رہے اور بہت سے بد لوگ ایسے ہیں کہ دنیا کی ہر طرح کی راحت میں ان کی ساری زندگی بسر ہوئی اب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکم و آقا تو اس بات کو بڑی ناانصافی گنتے ہیں کہ نیک و بد نوکر یا غلام کو ہمیشہ ایک حالت میں رکھا جائے اس احکم الحاکمین کے انصاف پر یہ دھبہ کون لگا سکتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں نہ نیکی کا کچھ ثمرہ ہے نہ بدی کی کوئی پرسش۔ چناچہ اسی مطلب کو سورة جائیہ میں ان لفظوں سے ادا فرمایا ہے۔ ام حسب الذی اجتر حوا السیات ان نجعلہم کالذین امنوا و عملوا الصحلت سواء محیاھم و مماتھم ساء مایحکمون و خلق اللہ السموت والارض باحلق و لتجزی کل نفس بما کسبت وھم لا یظلمون اور اسی مطلب کی تاکید سورة نون میں ان لفظوں سے فرمائی ہے افنجعل المسلمین کا لمجرمین مالکم کیف تحکمون۔ ان آیتوں کے اصلی معنی تو سورة جاثیہ اور سورة نون میں گزر چکے۔ یہاں حاصل مطلب اسی قدر ہے کہ آخرت کا حال کسی نے آنکھ سے تو ابھی تک دیکھا نہیں ہاں وہاں کا حال دنیا میں اسی قدر کسی کو معلوم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے رسول کو بتایا ہے وہ حال تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف میں یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ وہ دنیا کو دنیا کی ہی حالت پر رکھے اور ختم دنیا کے بعد دوسرا جہان سزا اور جزا کے لئے نہ پیدا کرے اور فرمانبرداروں اور نافرمانبرداروں کو یکساں کر دے اس کے سوا اٹکل پچو باتیں جو یہ نافرمان لوگ بناتے ہیں وہ اس کی باتیں بالکل بےٹھکانے ہیں پھر فرمایا جب قیامت کا آنا یقینی ہے تو آدمی کو چاہئے کہ اس دن خدا کو اچھی طرح منہ دکھانے کے ارادہ سے جہاں تک ہو سکے نیکی کرے اور جس عذاب سے اس کو ڈرایا گیا ہے اس سے ڈر کر برے کاموں سے پرہیز کرے اور یہ خوب جان لے کہ دنیا میں نیک و بد جو کچھ کرے گا اس دن وہ سب اس کے سامنے آنے والا ہے۔ دو روز نامچہ نویس خدا کی طرف سے ہر ایک شخص پر مقرر ہیں۔ رات دن انسان کے ہر قول و فعل کو لکھ لینا یہی ان کا کام ہے۔ شداد 1 ؎ بن اوس اور عبد اللہ بن عمر کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صاحب عقل وہی ہے جو زندگی میں موت کے بعد کا کچھ سامان کرلے اور کم عقل وہ ہے جو عمر بھر برے کاموں میں لگا رہے اور موت کے بعد پھر راحت کی توقع رکھی۔ بخاری 2 ؎ اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صحت اور فارغ البالی اللہ تعالیٰ کی دو بڑی نعمتیں ہیں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ دو نعمتیں دیں اور پھر وہ اللہ کی عبادت سے غافل رہے تو ایسے لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا 3 ؎ ہے پھر فرمایا جو کوئی اس فہمایش کے بعد بھی عقبیٰ کے انکار پر اڑا رہے گا تو اس کو وہاں ایسا پچھتاوا ہوگا کہ وہ عذاب کی سختی کے خیال سے یہ آرزو کرے گا وہ خاک ہوجاتا تو اچھا ہوتا۔ صحیح 4 ؎ مسلم ترمذی ‘ مسند امام احمد میں جو حضرت ابوہریرہ سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن یہاں تک انصاف ہوگا کہ اگر کوئی سینگ والا جانور بغیر سینگ والے جانور کو مار بیٹھا ہوگا تو اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ بیہقی ‘ تفسیر ابن 5 ؎ جریر ابن ابی حاتم کی روایتوں میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس بدلہ کے بعد سب جانوروں کو خاک ہوجانے کا حکم ہوگا اور وہ خاک ہوجائیں گے جانوروں کی یہ حالت دیکھ کر حشر کے منکر لوگ یہ آرزو کریں گے کہ وہ بھی اسی طرح خاک ہوجاتے تو عذاب سے بچ جاتے۔ 1 ؎ مشکوۃ شریف باب فی استحباب المال و العمر للطاعۃ فصل ثانی ص 451۔ والترغیب والترھیب فی ذکر الموت الخ ص 440 ج 4 جامع ترمذی ابواب صفۃ القیمۃ 82 ص ج 4 2 ؎ صحیح بخاری کتاب الرقاق ص 949 ج 2 3 ؎ جامع ترمذی ابواب الزھد ص 65 ج 2 4 ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص 320 ج 2 5 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 310 ج 6۔ (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 465 ج 4)
Top