Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
وہ جو آسمانوں اور زمین اور جو ان دونوں میں ہے سب کا مالک ہے بڑا مہربان کسی کو اس سے بات کرنے کا یارا نہیں ہوگا
رب السموت والارض وما بینھما . کو فیوں کی قراءت میں ربّ جر کے ساتھ ہے اور باقی قراء کے نزدیک ربُّ رفع کے ساتھ۔ الرحمن . عاصم اور ابن عامر کی قراءت میں جر کے ساتھ اور باقی اہل قراءت کے نزدیک رفع کے ساتھ ہے۔ بر قراءت جر رب اور الرحمن دونوں ربک کی صفت ہوں گے یا بدل ہوں گے اور بر قراءت رفع ربُّ السمٰوٰت مبتداء ہوگا اور الرحمن اس کی صفت اور لا یملکون خبر یا رب السمٰوٰت خبر ہے اور مبتداء محذوف ہے یعنی وہ ربّ السموات ہے اور الرحمن ربُّ کی صفت ہے یا ھُوَ (محذوف) مبتداء ‘ ربُّ السمٰوٰت پہلی خبر ‘ الرحمن دوسری خبر اور لا یملکون تیسری خبر ہے ‘ وغیرہ۔ لا یملکون منہ خطابا . یعنی زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی الرحمن سے خطاب کرنے کی قدرت نہیں رکھے گا۔ کلبی نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت نہ کرسکے گا۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ کوئی اللہ پر اعتراض نہ کرسکے گا کہ بعض کو بعض سے زیادہ اجر کیوں دیا کیونکہ سب خدا کے بندے ہیں ‘ اس کی ملک ہیں ‘ کسی کو ثواب کا استحقاق نہیں۔ ثواب اللہ کی مہربانی ہے۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری زندگی کا زمانہ گزشتہ امتوں کے زمانہ کے مقابلہ میں (ایسا ہے جیسا) عصر سے مغرب کا وقت ‘ تمہاری مثال یہود و نصاریٰ کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسی کسی نے کام ختم کرنے کے لیے مزدور رکھے اور کہا : جو شخص دوپہر تک کام کرے گا اس کو ایک قیراط ملے گا ‘ چناچہ یہودیوں نے ایک ایک قیراط کی شرط پر کام کیا ‘ پھر اس نے کہا جو دوپہر سے عصر تک کام کرے گا اس کو ایک قیراط ملے گا۔ نصاریٰ نے دوپہر سے عصر تک ایک ‘ ایک قیراط کی شرط پر کام کیا۔ پھر اس نے کہا : جو شخص نماز عصر سے مغرب تک کام کرے گا اس کو دو ‘ دو قیراط ملیں گے ‘ پس اب تم ہی وہ لوگ ہو جو عصر سے مغرب تک کام کرو گے ‘ خوب سن لو ‘ تمہارے لیے دوہرا اجر ہے۔ اس پر یہودی اور عیسائی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کام ہمارا زیادہ ہے اور عطیہ ہم کو کم ملا۔ اللہ نے فرمایا : کیا میں نے تمہارے حق میں سے کچھ مار لیا ؟ یہود و نصاریٰ نے کہا : نہیں۔ اللہ نے فرمایا : تو پھر میری مہربانی ہے ‘ میں نے جس کو چاہا دیا۔ (بخاری) میں کہتا ہوں کہ حضور ﷺ نے جو گزشتہ اقوام کے مقابلہ میں اس امت کی میعاد زندگی عصر سے مغرب تک قرار دی ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کی عمریں کوتاہ اور عمل زیادہ ہوں گے اور دو قیراط سے مراد مطلق کثرت ہے جیسے آیت : ارجع البصر کر تین میں کثرت مراد ہے ‘ صرف دوگنا مراد نہیں ہے۔ ہماری اس تفسیر پر یہ آیت گزشتہ آیت : جزاءً ا من ربک عطآءً ا حسابًا سے مربوط ہوجائے گی۔
Top