Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
مومنو ! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔
45۔ 46۔ اوپر کی آیتوں میں اس مدد کا ذکر تھا جو اس لڑائی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچی اب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو میدان جنگ کے آداب سمجھائے ہیں عبداللہ ؓ بن اوفی کی ایک حدیث صحیحین میں ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو تم دشمنوں سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو خدا سے عافیت چاہتے رہو اور جب دشمن سے مقابلہ ہوجاوے تو صبر اختیار کرو اور جان لو کہ جنت تلوار کے سایہ میں ہے آیتوں اور حدیث کو ملا کر مطلب یہ ہو کہ اے مسلمانوں جب کسی جماعت دشمن سے مقابلہ کرو تو صبر و سکون کو کام میں لاکر اپنے قدم اس معرکہ میں ثابت رکھو اور خدا کو یاد کرتے رہو اور بہت یاد کرو جس سے تمہیں فلاحیت ہوگی لڑائی کے وقت ذکر کا حکم اس لئے فرمایا کہ گھبراہٹ کے وقت خدا کا ذکر مددگار بنے اور بعضے مفسریہ کہتے ہیں کہ ذکر سے مراد دعا کا کرنا ہے جس طرح اصحاب طالوت نے یہ دعا کی رَبَّنَا اَفْرِغُ عَلَیُنَا صَبْرً اوَّثَبِّتْ اَقُدَ اَمَنا وَانُصُرُنَا عَلَی الْقَومِ اُلکَافِرِیْنَ 2/360 معتبر سند سے ابوداؤد مستدرک حاکم میں سہل ؓ بن سعد کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دین کی لڑائی کے وقت آدمی جو دعا کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس حدیث سے آخری قول تائید ہوتی ہے پھر یہ فرمایا کہ ہر حال میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو ورنہ تمہاری رائے مختلف ہوجائیں گی اور تم میں نامردی آجائے گی اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی اور فتح یابی رائگاں ہوجائیگی قتادہ کہتے ہیں تذھب ریحکم کے معنے مدد غیبی کے ہیں مطلب یہ ہے کہ تفرقہ کے پیدا ہوجانے سے پھر تمہیں غیب سے مدد نہ ملے گی پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ لڑائی میں صبر کرو کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جب خدا ساتھ ہوگیا تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا ہے سورة آل عمران میں گذر چکا ہے کہ احد کی لڑائی کے وقت مدینہ کے اندر سے لڑنے اور مدینہ کے باہر جاکر لڑنے میں صحابہ مختلف ہوئے پھر تیرا نداز لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا بتلایا ہوا پہاڑ کا ناکہ چھوڑ دیا غرض احد کی لڑائی سے تیرہ مہینے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں مسلمانوں کو لڑائی کے وقت ایسی باتوں سے روکا تھا لیکن تقدیر الہی کے موافق احد کی لڑائی کے وقت اس ممانعت کا خیال مسلمانوں کو نہ رہا اس واسطے اس لڑائی کا انجام اچھا نہیں ہوا سختی کے وقت صبر کرنے کا یہ مطلب ہے کہ گویا آدمی اس سختی کی کشایش کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چھوڑتا ہے اسی واسطے فرمایا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جس کا یہ مطلب ہوا کہ جو شخص اپنی سختی کی کشایش کو اللہ کی مرضی پر منحصر رکھے گا اللہ اس کی سختی کی کشایش میں اس کے ساتھ اور اس کی مدد کو موجود ہے اس لئے صحیح بخاری اور مسلم میں ابوسعید خدری ؓ کی جو ایک حدیث ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صبر سے بڑھ کر کوئی اچھی چیز آدمی کو نہیں دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صبر کا دنیا میں تو یہ مرتبہ ہے کہ صبر کرنے والے شخص کے ساتھ اللہ ہے اور عقبیٰ میں صبر کا وہ اجر ہے کہ جس کا حساب اور اندازہ سوا اللہ کے کسی کو معلوم نہیں چناچہ طبرانی کبیر میں معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اور عملوں کا اجر تو حساب سے ملے گا لیکن صبر ایسی چیز ہے جس کا اجر صبر کرنے والوں کو اس دن بےحساب ملے گا یہ حدیث آیت اِنَّما یُوَفّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (39: 10) کی گویا تفسیر ہے۔
Top