Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 52
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
كَدَاْبِ : جیسا کہ دستور اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں کا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں پکڑا اللّٰهُ : اللہ بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَوِيٌّ : قوت والا شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی انکا ہوا کہ) انہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا تو خدا نے ان کے گناہوں کی سزا میں ان کو پکڑ لیا۔ بیشک خدا زبردست (اور) سخت عذاب دینے والا ہے۔
52۔ اللہ پاک نے کفار بدر کے عذاب کے ذکر فرمانے کے بعد مشرکوں کو پہلی امتوں کا عذاب یاد دلا کر فرمایا کہ ان مشرکین مکہ کو جو ہم نے ان کی گمراہی اللہ کے آیتوں اور اس کے رسول کے جھٹلانے کے سب سے بدر کی لڑائی میں ہلاک کردیا یہ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ ہمیشہ سے یہی عادت الٰہی ہے کہ جو قومیں ان سے پہلے گذریں جو کفر کرتی گئیں اور انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا پھر فورا اس خطا پر اللہ نے انہیں پکڑلیا اللہ پاک بہت یہی قوی ہے اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے اور اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے اس سے کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا ہے معتبر سند سے مستدرک حاکم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مشرکین مکہ کے بڑوں میں ایک شخص عمر وبن لحی تھا پہلے پہل اس نے ملت ابراہیمی کو بدل کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی اور جب سے پشت درپشت مکہ میں بت پرستی چلی آتی ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ کی کئی پشت سے مکہ میں بت پرستی چلی آتی تھی اس لئے وہ لوگ اس کو ایک قدیمی بات سمجھتے تھے اور اس کی حمایت میں قرآن اور اللہ کے رسول کو جھٹلانا ایک معمولی بات جانتے تھے حاصل یہ ہے کہ جس طرح ایک تاریخی ثبوت کے طور پر یہ لوگ عمر وبن لحی کے زمانے سے بت پرستی کی قدامت نکالتے تھے اور اس کے مقابلہ میں شریعت الٰہی کو ایک جدید چیز جان کر اسے جھٹلاتے تھے اسی طرح تاریخی ثبوت سے اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی سے بچے ہوئے مشرکوں کو اس آیت میں قائل کیا اور فرمایا کہ عمر وبن لحی کا زمانہ توکل کی بات ہے پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے اگرچہ یہ بت پرستی کی بلا چلی آتی ہے لیکن کسی زمانہ میں اس کی قدامت کو اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں رکھا بلکہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر فرعون کے زمانہ تک جس جس قوم میں یہ شرک کا جرم پھیلا اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان سب قوموں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اس بدر کی لڑائی میں بھی ان مشرکین مکہ کے بڑے بڑے سرکشوں نے قتل اور قید کی ذلت جو اٹھائی وہ بھی پہلے کے موافق اسی جرم کی سزا تھی۔ اس لڑائی میں اس جرم کے جو مجرم ذلت سے بچ گئے ہیں ان میں سے جو لوگ اس جرم سے آئندہ باز آئے وہ تو ذلت سے بچ جاویں گے اور جو اس جرم میں گرفتار رہے ان کے نصیب میں آخر کو یہی ذلت لکھی ہے اللہ سچا ہے اور اس کا کلام سچا ہے فتح مکہ تک مشرکین مکہ میں سے جو لوگ شرک چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے وہ ذلت سے بچ گئے اور جو اپنی قدیمی حالت پر رہے انہوں نے نہات ذلت سے آخر کو اپنی بستی اہل اسلام کے قبضہ میں دے دی اور سوا شرک کے چھوڑنے اور اسلام قبول کرنے کے ان کو اور کچھ بن نہ آیا اس سے بڑھ کر مشرکین مکہ کی اور کیا ذلت ہوسکتی ہے کہ مکہ اور اطراف مکہ میں ان کے تین 360 سو ساٹھ بت جو رکھے تھے جن کو یہ مشرک لوگ اپنا معبود جانتے تھے فتح مکہ کے دن آنحضرت ﷺ نے ہاتھ میں لکڑی مار مار کر ان بتوں کو گرا دیا اور کوئی مشرک اپنے ان معبودوں کی کچھ حمایت نہ کرسکا صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں ان بتوں کے گرانے کا پورا قصہ ہے :۔
Top