Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب يَعِدُكُمُ : تمہیں وعدہ دیتا تھا اللّٰهُ : اللہ اِحْدَى : ایک کا الطَّآئِفَتَيْنِ : دو گروہ اَنَّهَا : کہ وہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَتَوَدُّوْنَ : اور چاہتے تھے اَنَّ : کہ غَيْرَ : بغیر ذَاتِ الشَّوْكَةِ : کانٹے والا تَكُوْنُ : ہو لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور يُرِيْدُ : چاہتا تھا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّحِقَّ : ثابت کردے الْحَقَّ : حق بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات سے وَيَقْطَعَ : اور کاٹ دے دَابِرَ : جڑ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابو سفیان اور ابو جہل کے) دو گرہوں میں ایک گردہ تمہارا مسخر) ہوجائے گا۔ اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و) شوکت (یعنی بےہتھیار) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے اور خدا چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے اور جو کافروں کی جڑ کاٹ کر (پھینک) دے۔
7۔ 8۔ اس آیت کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے محمد بن اسحاق حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے اس قصہ بدر کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ابوسفیان قریش کا بہت سا مال لیکر ملک شام سے چلا یہ خبر حضرت کو ملی آپ نے صحابہ سے کہا تم مدینہ سے باہر نکلو اگر خدا نے چاھا تو تمہیں یہ سب مال مل جائیگا اکثر لوگ آپ کے ساتھ ہوگئے اور بعضے رہ گئے کیونکہ لڑائی کا ارادہ تو تھا ہی نہیں جو سب کے سب نکلتے ابوسفیان نے مدینہ کے قریب پہنچ کر جاسوس بھیجے جاسوس سے جو شخص ملتا تھا اس سے حال پوچھتے چلے جاتے تھے ایک قافلہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مع صحابہ کے تمہارے قافلہ پر آیا چاہتے ہیں یہ خبر جاسوس نے ابوسفیان سے جاکر کہی اس نے ایک شخص ضمضم بن عمر و غفاری کو اجرت دے کر قریش کی طرف بھیجا اور کہا کہ قریش کو جمع کر کے لے آؤ اور اپنا مال بچاؤ حضرت مع اپنے اصحاب کے ہر اہ روانہ ہوئے ضمضم تو ادھر روانہ ہوا اور آنحضرت صلعم جب تک وادی ذفران تک پہنچے ادھر سے قریش کی ہزار آدمیوں کی فوج آگئی آپ کو یہ خبر معلوم ہوئی آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ نے نیک مشورہ دیا اور بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم تو قریش سے لڑنے کے لیے نہیں نکلے تھے آپ نے کہا کہ تم ایک ایک علیحدہ بتلاتے جاؤ قریش سے جنگ کرنے میں تمہاری کیا رائے ہے مقاد بن عمرو ؓ نے کہا کہ یارسول اللہ صلعم آپ کو جو حکم خدا نے دیا ہے وہ کیجیے ہم آپ کے ساتھ ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے جو بات کہی تھی کہ وہ اور ان کا خدا جاکر لڑیں ہم تو قوم عمالقہ سے لڑنے کو نہیں جائیں گے ان کہنے والوں میں ہم نہیں ہیں ہم کو اسی ذات کی قسم ہے جس نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے اگر آپ ملک حبشہ تک جا کر مقاتلہ کرنا چاہیں تو ہم بھی وہاں تک چل کر لڑیں گے آپ نے مقداد ؓ کو دعا دی پھر آپ نے انصاری کی طرف خطاب کر کے فرمایا تمہاری کیا رائے ہے سعد بن معاذ ؓ نے کہا کہ یا حضرت ﷺ ہم آپ پر ایمان لاچکے ہیں آپ کے رسول ہونے کی تصدیق کرچکے ہیں جو کچھ آپ خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی گواہی دے چکے ہیں آپ سے قول وقرار مضبوطی کے ساتھ کرچکے ہیں جو کچھ آپ کو خدا کا فرمان ہے اس کے بموجب حکم دیئے اگر دریا میں گھسیں گے تو ہم بھی آپ کے ساتھ گھس پڑیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا ہم اس بات سے ناخوش نہیں ہیں کہ ہم کو دشمن سے لڑنا پڑے گا ہم جنگ کے وقت صبر کرنے والوں میں ہیں اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اللہ پاک آپ کو ایسی بات دکھلاوے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں آپ بسم اللہ کر کے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ چلو غرض کہ اللہ پاک نے ابوسفیان کے قافلے اور مشرکین مکہ کی فوج انہیں دونوں گروہ کا ذکر اس آیت میں فرمایا کہ ان دو گروہ میں سے ایک کا وعدہ میں کرچکا ہوں کہ ایک تمہارا ہے تم ان میں سے ایک پر غالب ہوجاؤ گے انہیں قتل کرو اور مال غنیمت لو وہ تمہیں دفع نہیں کرسکے گا اور جو یہ چاہتے ہو کہ نرم لقمہ تمہارے ہاتھ لگے تو ابوسفیان کا قافلہ بےلڑے بھڑے لوٹ لو یہ قافلہ بےہتھیارے ہے تو یہ بات اللہ کو پسند نہیں ہے خدا کا ارادہ تو یہ ہے کہ مشرکین کی جو فرج سامان جنگ سے درست ہے ہتھیار لگئے ہوئے ہے اس پر تمہیں فتح مند کرے اور اپنی حق بات پوری کرے اور کفار کو نسیت ونا بود کرے بہت سے لوگ قید ہوں اور بہت سامان تمہارے ہاتھ لگے حق کو غلبہ ہو جھوٹ مغلوب ہو یہ بات اچھی ہے یا وہ بات اچھی ہے جس کو تم اچھا جانتے ہو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہ قول مختصر طور پر طبرانی میں بھی ہے جس کی روایت علی بن ابی طلحہ کے ذریعہ سے ہے اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جو قول عبداللہ بن عباس ؓ کا علی بن ابی طلحہ کے ذریعہ سے روایت کیا جاتا ہے وہ نہایت صحیح ہوتا ہے اس لئے آیت کو جو تفسیر عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق اوپر بیان کی گئی ہے وہ صحیح ہے علاوہ اس کے مختصر طور پر یہ قصہ صحیح بخاری ونسائی میں بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے آیا ہے جس سے محمد بن اسحاق کی روایت 2: کو پوری تقویت ہوجاتی ہے بعضے مفسروں کو یہ شبہ جو پیدا ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تو بدر کی لڑائی کے وقت موجود نہیں تھے پھر ان کی روایت اس بات میں آنحضرت ﷺ تک مسلسل کیونکر شمار کی جاسکتی ہے اس شبہ کو حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں یوں رفع کردیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بدر کی لڑائی کے قصوں کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ یا حضرت عمر ؓ سے سن کر روایت کرتے ہیں چناچہ صحیح مسلم کی بعضی روایتوں میں خود حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ اصل میں یہ قصہ میں نے حضرت عمر ؓ سے سنا ہے اس طرح ایک صحابی دوسرے صحابی سے سن کر کوئی روایت کرے تو اس کو صحابی کی مرسل روایت کہتے ایسی روایت کے مقبول ہونے پر سب محدثین اور مفسرین کا اتفاق ہے ابن ماجہ کے حوالہ سے زیدبن ثابت ؓ کی معتبر روایت ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جن لوگوں کو زندگی کا دار و مدار فقط دنیا کی دولت کمانے پر ہے ان کو دنیا کا مالک ومتاع تو اسی قدر ملے گا جو ان کے تقدیر میں ہے لیکن ان کو زندگی دنیا کی سرگردانی میں بسر ہوگی اور جن لوگوں کو قصد عقبے کی بہبودی کا ہوگا وہ دین دنیا دونوں پاویں گے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ جن لوگوں کا آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے ابوسفیان کے قافلہ کے لوٹنے کا لالچ چھوڑ کر عقبے کی بہبودی کے قصد سے دین کی لڑائی میں جو اللہ کے رسول کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا اور عقبے میں دونوں جہان میں وہ لوگ اچھے ہے دنیا میں ہر ایک کے حصہ میں پانچ ہزار کا مال آیا اور عقبے میں دین کی لڑائی کا اجر پاویں گے اسی طرح ابھی عقبے کی بہبودی کا قصد جو لوگ رکھیں گے وہ دین و دنیا دونوں پاویں گے۔ ولو کرہ المجرمون کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو اگرچہ اسلام کی ترقی شاق ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادہ میں جو اسلام کی ترقی ٹھہر چکی ہے وہ ہو کر رہے گی اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے زمانہ سے اسلام کی جو ترقی شروع ہوئی وہ ظاہر ہے :۔
Top