Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
38۔ 39۔ آنحضرت ﷺ نے ماہ رجب 9؁ ہجری میں غزوہ تبوک کا ارادہ کیا تبوک شام کی طرف ایک جگہ ہے جو دمشق کے راستہ پر مدینہ سے چودہ منزل پر واقع ہے اس وقت گرمی بڑی سخت پر رہی تھی اور موسم بھی ایسا تھا کہ درخت پھلوں سے لدے پڑے تھے آپ نے بڑے سفر کا یہ ارادہ کیا تھا اس لئے پہلے سے لوگوں کو تیار ہونے کو کہا اکثر لوگ آپ کے ساتھ ہوگئے تھوڑے سے اپنے گھروں میں رہ گئے آپ کے ساتھ نہیں گئے انہیں لوگوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ اے ایماندار لوگو تم اللہ اور رسول پر ایمان لاکر پھر اللہ کے رسول کے حکم سے سرتابی اور دین کی لڑائی میں شریک ہونے سے سہو کرتے ہو اور حیلے بہانے کر کے فقط ان خیالات سے گھروں میں بیٹھ رہے ہو کہ گرمی سخت ہے اور دور دراز کا سفر ہے اور مدینہ میں درخت بار دار ہو رہے ہیں جن کی خبر گیری ضروری ہے پھر فرمایا کہ کیا تم لوگ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو بہتر جانتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا فانی ہے اس کی نعمتیں ہمیشہ باقی نہیں رہیں گی تو پھر یہ دنیا کیونکر آخرت کے مقابل ہوسکتی ہے آخرت کی نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہیں اس واسطے دنیا کا مال ومتاع عقبے کی نعمتوں کے آگے محض حقیر اور بےحقیقت ہے اس آیت میں اللہ پاک نے صاف طور پر دین کی لڑائی کو ان لوگوں کے حق میں ہر وقت میں واجب ٹھہرایا جن کو اللہ کے رسول نے لڑائی پر چلنے کا حکم دیا تھا اسی واسطے اس کے بعد یہی فرمایا کہ اگر تم کسی دین کی لڑائی میں پیچھے رہ جاؤ گے اور شریک نہ ہوگے۔ تو تم پر سخت سخت عذاب آنے لگیں گے آخری میں بھی عذاب کئے جاؤ گے اور دنیا میں بھی طرح طرح کی مصیبتیں اٹھاؤگے قحط پڑنے لگے گا بارش نہیں ہوگی بھوک وپیاس کے مارے تمہاری جانیں تلف ہونے لگیں گی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس غزوہ میں عرب کے تھوڑے سے آدمی حضرت ﷺ کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ پاک نے ان سے پانی کو روک لیا کال کا سامنا ہوگیا یہی عذاب تھا جس کا ذکر اس آیت میں فرمایا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت ابوداؤد میں ہے اگرچہ ابوداؤد اور منذری نے اس حدیث کی سند پر سکوت اختیار کیا ہے لیکن اس حدیت کی سند میں ایک راوی نجدہ بن نفیع ہے جس کو بعضے علما نے نامعلوم الحال لکھا ہے اس واسطے آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے اس کا خصوصیت کسی خاص عذاب کے ساتھ نہیں کی جاسکتی۔ پھر عذاب کے بعد دوسری بات بیان فرمایا کہ اللہ تم لوگوں کا محتاج نہیں ہے اسے تو بہت بڑی قدرت حاصل ہے اگر تم اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دوگے تو تمہاری جگہ وہ دوسری قوموں سے کام لے گا اور وہ لوگ اللہ کے رسول کا ساتھ دیں گے خدا و رسول کو تم کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے ہو کیونکہ اللہ کو ہر طرح کی قدرت حاصل ہے تم نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی غرض کہ وہ اپنے رسول سے مدد کا وعدہ کرچکا ہے اس کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ اگرچہ صحیح بخاری میں اس تبوک کی لڑائی کا باب حجۃ الوداع کے بعد ہے لیکن حافظ ابن حجر (رح) نے اس کو کاتب کا سہو ٹھہرا کر یہ کہا ہے کہ سب کے نزدیک تبوک کی لڑائی حجۃ الوداع کے پہلے 9 ھ؁ کے ماہ رجب میں ہیں اس لڑائی میں آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر کر کے مدینہ میں چھوڑا تھا جس کا ذکر آگے آتا ہے یہ حضرت علی ؓ کا قصہ صحیح بخاری میں سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت سے ہے اس لڑائی میں دو سو اونٹوں کی اور بعضی روایتوں میں تیں سواونٹوں اور ہزار اشرفی نقد کی مدد حضرت عثمان ؓ نے لشکر اسلام کو دی ہے جس کی معتبر روایتیں مسند امام احمد ترمذی اور مستدرک حاکم میں ہیں جس سبب سے یہ لڑائی پیش آئی اس کی تفصیل طبرانی کی عمران بن حصین ؓ کی روایت سے آگے آتی ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے مستور دبن شدار ؓ حجازی کوفی کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے عقبے کی نعمتوں کی مثال ایک دریا کی اور دنیا کی نعمتوں کی مثال ایک قطرہ کی فرمائی ہے آیت میں عقبے کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی نعمتوں کو تھوڑا جو فرمایا ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ابوداؤد میں جو روایت ہے کہ آیت الاتنفروایعذبکم عذابا الیما اس سورت کی آیندہ کی آیت وما کان المومنون لینفروا کافۃ سے منسوخ ہے اس روایت کی سند میں ایک راوی علی بن الحسین بن واقد کے ثقہ ہونے میں بعضے علماء کو کلام ہے اس واسطے حافظ ابوجعفرابن جریر نے اپنی تفسیر میں اور حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں ہی فصلہ کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ یہ آیت خاص ان لوگوں کے حق میں ہے جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے تبوک کی لڑائی پر چلنے کا حکم دیا تھا اور پھر بھی وہ لوگ سستی کر کے نہیں گئے اور آیندہ کی آیت عام صحابہ کے حق میں ہے آیت کے ٹکڑے یایھا الذین امنوا اذاقیل لکم انفر وافی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض سے حافظ ابوجعفر ابن جریر (رح) اور حافظ ابن حجر (رح) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کے اس ٹکڑے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خفگی انہیں لوگوں پر ہے جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے اس لڑائی میں چلنے کا حکم دیا تھا اور پھر بھی وہ لوگ سستی کر کے اس لڑائی میں نہیں گئے ویستبدل قوما غیرکم کی تفسیر بعضے سلف نے اہل فارس کو ٹھہرایا ہے اور بعضوں نے اہل یمن کو لیکن آگے کی آیت میں فرشتوں کی مدد کا ذکر ہے اس لئے سلف میں سے جو مفسرین آیت کی تفسیر کسی خاص قوم کو نہیں ٹھہراتے ان کا قول قوی معلوم ہوتا ہے۔
Top