Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو تم کو کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر کیا خوش ہوگئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت تھوڑا4
4 یہاں سے غزوہ تبوک کے لیے مومنین کو ابھارا گیا ہے گذشتہ رکوع سے پہلے رکوع میں (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) 9 ۔ التوبہ :29) سے اہل کتاب کے مقابلہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ درمیان میں جو ذیلی مضامین آئے ان کا ربط موقع بہ موقع ظاہر ہوتا رہا ہے گویا وہ سب رکوع حاضر کی تمہید تھی۔ اور رکوع حاضر غزوہ تبوک کے بیان کی تمہید ہے۔ فتح مکہ و غزوہ حنین کے بعد 9 ہجری میں نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ شام کا نصرانی بادشاہ (ملک غسان) قیصر روم کی مدد سے مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ حضور نے مناسب سمجھا کہ ہم خود حدود شام پر اقدام کر کے اس کا جواب دیں۔ اس لیے کے آپ ﷺ نے عام طور پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاد کے لیے تیار ہوجائیں۔ گرمی سخت تھی۔ قحط سالی کا زمانہ تھا کجھور کی فصل پک رہی تھی سایہ خوشگوار تھا۔ پھر اس قدر بعید مسافت طے کر کے جانا، اور نہ صرف ملک غسان بلکہ قیصر روم کی باقاعدہ اور سروسامان سے آراستہ افواج سے نبرد آزما ہونا، کوئی کھیل تماشہ نہ تھا۔ ایسی مہم میں مومنین مخلصین کے سوا کس کا حوصلہ تھا کہ جانبازانہ قدم اٹھا سکتا۔ چناچہ منافقین جھوٹے حیلے بہانے تراش کر کھسکنے لگے۔ بعض مسلمان بھی ایسے سخت وقت میں اس طویل وصعب سفر سے کترا رہے تھے۔ جن میں بہت سے تو آخرکار ساتھ ہو لیے اور گنے چنے آدمی رہ گئے۔ جن کو کسل و تقاعد نے اس شرف عظیم کی شرکت سے محروم رکھا۔ نبی کریم ﷺ تقریباً تیس ہزار سر فروش مجاہدین کا لشکر جرار لے کر حدود شام کی طرف روانہ ہوگئے اور مقام تبوک میں ڈیرے ڈال دیے۔ ادھر قیصر روم کے نام نامہ مبارک لکھا جس میں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ حضور ﷺ کی صداقت اس کے دل میں گھر کرگئی۔ مگر قوم نے موافقت نہ کی۔ اس لیے قبول اسلام سے محروم رہا۔ شام والوں کو جب حضور ﷺ کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو قیصر روم سے ظاہر کیا۔ اس نے مدد نہ کی، ان لوگوں نے اطاعت کی مگر اسلام نہ لائے۔ تھوڑی مدت کے بعد حضور ﷺ کی وفات ہوئی اور فاروق اعظم کے عہد خلافت میں تمام ملک شام فتح ہوا۔ جب حضور ﷺ تبوک سے غالب و منصور واپس تشریف لائے اور خدا نے بڑی بڑی سلطنتوں پر اسلام کی دھاک بٹھلا دی تو منافقین مدینہ بہت فضیحت ہوئے۔ نیز چند سچے مسلمان جو محض سستی اور کسل کی بنا پر نہ گئے تھے بیحد نادم و متحسر تھے۔ اس رکوع کے شروع سے بہت دور تک ان ہی واقعات کا ذکر ہے مگر زیادہ منافقین کی حرکات بیان ہوئی ہیں کہیں کہیں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو بڑی شدت سے جہاد کی طرف ابھارا اور بتلایا ہے کہ تھوڑے سے عیش و آرام میں پھنس کر جہاد کو چھوڑنا گویا بلندی سے پستی کی طرف گر جانے کا مرادف ہے۔ مومن صادق کی نظر میں دنیا کے عیش و آرام کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہ ہونی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ اگر خدا کے نزدیک دنیا کی وقعت پر پشہ کی برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔
Top