Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 17
یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍ١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ
يَّتَجَرَّعُهٗ : اسے گھونٹ گھونٹ پیے گا وَلَا : اور نہ يَكَادُ يُسِيْغُهٗ : گلے سے اتار سکے گا اسے وَيَاْتِيْهِ : اور آئے گی اسے الْمَوْتُ : موت مِنْ : سے كُلِّ مَكَانٍ : ہر طرف وَّمَا هُوَ : اور نہ وہ بِمَيِّتٍ : مرنے والا وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهٖ : اس کے پیچھے عَذَابٌ : عذاب غَلِيْظٌ : سخت
وہ اسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پیے گا اور قریب نہ ہوگا کہ اسے حلق سے اتارے اور اس کے پاس موت ہر جگہ سے آئے گی، حالانکہ وہ کسی صورت مرنے والا نہیں اور اس کے پیچھے ایک بہت سخت عذاب ہے۔
يَّتَجَرَّعُهٗ : یہ باب تفعل سے ہے، جس میں تکلف کا معنی ہوتا ہے، یعنی مشکل سے ایک ایک گھونٹ کرکے اسے پیے گا اور وہ اتنا کڑوا، بدذائقہ، بدبو دار اور گرم ہوگا کہ قریب نہیں کہ گلے سے اتار سکے، مگر پیاس کا عذاب اسے پینے پر مجبور کرے گا اور اندر جا کر وہ ان کی انتڑیاں کاٹ دے گا۔ دیکھیے سورة محمد (15)۔ وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ۔۔ : اور ہر جگہ سے اسے موت آتی دکھائی دے گی، کیونکہ جہنم کی ایک ایک چیز موت کے لیے کافی ہے، مگر وہ کسی صورت مرنے والا نہیں، کیونکہ وہاں موت ہوگی ہی نہیں۔ ”بِمَيِّتٍ“ کی باء سے نفی کی تاکید ہوئی، اس لیے ترجمہ میں ”کسی صورت“ کا اضافہ ہوگیا۔ دیکھیے سورة فاطر (36) اور سورة اعلیٰ (13)۔ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ : یعنی اس کے بعد اور سخت عذاب ہے۔ اب اس کی مختلف صورتیں تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جن میں سے بہت سی چیزیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، البتہ عذاب کے طور پر مسلط ہونے والی بھوک اور زقوم کے کھانے کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے، فرمایا : (اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43؀ۙ طَعَامُ الْاَثِيْمِ 44؀ٻ كَالْمُهْلِ ڔ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ 45؀ۙكَغَلْيِ الْحَمِيْمِ 46؀ خُذُوْهُ فَاعْتِلُوْهُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِيْمِ 47؀ ڰ ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِ 48؀ۭذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ) [ الدخان : 43 تا 49 ] ”بیشک زقوم کا درخت۔ گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔ اسے پکڑو، پھر اسے بھڑکتی آگ کے درمیان تک دھکیل کرلے جاؤ۔ پھر کھولتے پانی کا کچھ عذاب اس کے سر پر انڈیلو۔ چکھ، بیشک تو ہی وہ شخص ہے جو بڑا زبردست، بہت باعزت ہے۔“ جہنم کے سخت عذاب کا اندازہ دنیا میں کسی طرح نہیں ہوسکتا جس کی آگ ہی یہاں کی آگ سے ستر (70) گنا گرم ہے، البتہ جہنم کے سب سے کم عذاب کا بیان جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، اس سے سخت عذاب کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرلیں، حقیقی علم تو ممکن ہی نہیں، نہ وہ بیان میں آسکتا ہے۔ نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ أَہْوَنَ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَہُ نَعْلاَن وَ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ ، یَغْلِيْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ ، کَمَا یَغْلِي الْمِرْجَلُ مَا یَرَی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْہُ عَذَابًا، وَ إِنَّہُ لَأَہْوَنُہُمْ عَذَابًا) [ مسلم، الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا : 364؍213 ]”اہل نار میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہوگا جس کے لیے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے ہوں گے، ان دونوں سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا ہوگا جیسے ہانڈی ابلتی ہے، وہ نہیں خیال کرے گا کہ اس سے زیادہ بھی کسی کو عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ وہ ان سب سے کم عذاب والا ہوگا۔“ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ عَذَاب الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ]
Top