Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 99
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠   ۧ
وَاعْبُدْ : اور عبادت کریں رَبَّكَ : اپنا رب حَتّٰى : یہانتک کہ يَاْتِيَكَ : آئے آپ کے پاس الْيَقِيْنُ : یقینی بات
اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آجائے۔
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ : یعنی موت آنے تک اپنے رب کی عبادت پر قائم رہیں۔ موت کو ”یقین“ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔ قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ”یقین“ کا لفظ موت کے معنی میں آیا ہے، جیسے فرمایا : (حَتّىٰٓ اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ) [ المدثر : 47 ] ”یہاں تک کہ ہمیں یقین آپہنچا (یعنی موت آگئی)۔“ اس لیے سب قابل ذکر مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت مراد لیا ہے۔ تو جب تک ہوش رہے نماز اور دوسری عبادات زندگی کے آخری دم تک حسب طاقت کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنا فرض ہے۔ بعض جاہل اور بےعمل پیر اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہوجائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو نماز، روزہ اور عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ کھیل ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو حاصل نہ ہوسکا کہ وہ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے مراد یقین قلبی لینا اور نماز روزہ چھوڑ دینا صریح بےدینی ہے۔
Top