Al-Qurtubi - Al-Hijr : 99
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠   ۧ
وَاعْبُدْ : اور عبادت کریں رَبَّكَ : اپنا رب حَتّٰى : یہانتک کہ يَاْتِيَكَ : آئے آپ کے پاس الْيَقِيْنُ : یقینی بات
اور اپنے پروردگار کی عبادت کئے جاؤ یہاں تک کہ تمہاری موت (کا وقت) آجائے۔
آیت نمبر 99 اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ الیقین سے مراد موت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی عبادت کا حکم دیا جب اس کے بندے اس میں کوتاہی کریں کہ یہ آپ پر واجب ہے۔ اگر کہا جائے : قول باری تعالیٰ : حتی یاتیک الیقین کا کیا فائدہ ہے ؟ حالانکہ قول باری تعالیٰ : واعبد ربک کا حکم دینے کے بارے میں کافی تھا، تو کہا جائے گا : اس میں فائدہ یہ ہے کہ اگر رب کریم مطلقا واعبد ربک فرماتا پھر آپ ایک بار اس کی عبادت کرلیتے تو آپ اطاعت کرنے والے ہوجاتے اور جب فرمایا : حتی یاتیک الیقین تو اسکا معنی ہوا اس سے جدائی اور علیحدگی اختیار نہ کیجئے یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔ پھر اگر کہا جائے : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کیسے کہہ دیا : واعبد ربک حتی یاتیک الیقین اور ابدا نہیں کہا، تو جواب یہ ہے کہ الیقین، ابداً کے قول کی نسبت زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ لفظ ابدا ایک لحظہ اور ہمیشہ کے معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ اور یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہاں مراد مدت حیات تک عبادت کو جاری رکھنا ہے، جیسا کہ عبد صالح نے کہا : واوصنی بالصلوۃ و الزکوۃ ما دمت حیا۔ (مریم) (اور اسی نے مجھے حکم دیا ہے نماز ادا کرنے کا اور زکوٰۃ دینے کا جب تک میں زندہ رہوں) ۔ اور اسی پر یہ مسئلہ مرتب ہوتا ہے کہ جب کسی آدمی نے اپنی بیوی کو کہا : أنت طالق أبدا (تو ہمیشہ طلاق والی ہے) اور کہا : میں نے اس سے ایک دن یا ایک مہینے کی نیت کی ہے تو اس کے لئے رجعت کا حق حاصل ہوگا۔ اور اگر اس نے کہا : میں نے اسے زندگی بھر کے لئے طلاق دی ہے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ اور اس پر دلیل کہ یقین سے مراد موت ہے ام العلاء انصاریہ کی حدیث ہے، اور وہ بیعت کرنے والی عورتوں میں سے تھی۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” رہے عثمان یعنی عثمان بن مظعون ؓ تحقیق انہیں موت آئی اور میں ان کے لئے خیر کی امیدر کھتا ہوں قسم بخدا ! میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں وہ جو اس کے ساتھ کیا جائے گا “۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ امام بخاری (رح) اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ اور حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) تعالیٰ کہتے ہیں : لوگوں کو موت کے بارے جو یقین ہے اس سے زیادہ کوئی یقین شک کے مشابہ میں نے نہیں دیکھا کہ پھر وہ اس کی تیاری نہیں کرتے، یعنی گویا وہ اس میں شک کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہاں یقین سے مراد وہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں (کہ) آپ کی آپ کے دشمنوں کے خلاف مدد کی گئی ہے۔ یہ ابن شجرہ نے کہا ہے اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اور یہی حضرت مجاہد، قتادہ اور حسن کا قول ہے۔ واللہ اعلم۔ جبیر بن نفیر نے ابو مسلم خولانی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے بیشک حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور میں تاجروں میں سے ہوجاؤں لیکن میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ آپ پاکی بیان کیجئے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اور سجدہ کرنے والوں سے ہوجائیے اور اپنے رب کی عبادت کیجئے یہاں تک کہ آپ کے پاس الیقین آجائے “۔
Top