Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا۔۔ : ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی : (قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْن) [ الشعراء : 84 ] ”اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔“ اس لیے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ میں سے ہر ایک ابراہیم ؑ کی عزت و تکریم کرنے والا اور ان کی ملت کا متبع ہونے کا دعوے دار تھا، چناچہ فرمایا : (وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ 108؀ۖسَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ) [ الصافات : 108، 109 ] ”اور پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔“ یعنی بعد میں آنے والے سب لوگ ان پر سلام بھیجیں گے، اس لیے اللہ نے ابراہیم ؑ کی صفات اور ان کا منہج بیان فرمایا، جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ملت ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ اُمَّةً : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کی پہلی صفت ”اُمَّةً“ بیان فرمائی۔ اس آیت میں لفظ ”اُمَّةً“ کا معنی پیشوا اور امام بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامً) [ البقرۃ : 124 ] ”بیشک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔“ اور یہ بھی کہ وہ اکیلے ہی ایک امت (جماعت) تھے، کیونکہ اکیلے ہی میں اتنے کمالات تھے جو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور اکیلے شخص نے اتنا کام کیا جو ایک امت کے برابر تھا۔ تیسرا معنی یہ کہ ایک مدت تک اکیلے ہی وہ اور ان کی بیوی امت مسلمہ تھے، جیسا کہ جبار مصر اور سارہ[ کے واقعہ میں ہے کہ ابراہیم ؑ نے سارہ[ سے کہا کہ اس وقت اس سرزمین میں میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں، سو تم ایمان میں میری بہن ہو۔ [ بخاری : 3358 ] دوسری صفت ”قَانِتًا لِّلّٰهِ“ بیان فرمائی، یعنی اللہ کے فرماں بردار نہایت عاجزی کے ساتھ، کیونکہ ان دونوں کے مجموعی مفہوم کو قنوت کہتے ہیں۔ ”حَنِيْفًا“ تیسری صفت ہے، ”حَنَفٌ“ کا معنی ہے ایک طرف جھک جانا، یعنی تمام باطل دینوں سے ہٹ کر حق کی طرف مائل ہونے والا، تمام خداؤں کا انکار کرکے صرف ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا۔ جس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، زندگی اور موت سب ایک اللہ کے لیے تھے۔ دیکھیے سورة انعام (161 تا 163)۔ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : یہ مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ پر تعریض اور ان سب کے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کی نفی کا اظہار ہے کہ وہ تو مشرکوں میں سے نہیں تھے، جب کہ تم سب بتوں کو یا قبروں کو، عزیر یا عیسیٰ ؑ کو اور اپنے احبارو رہبان کو رب بنا کر شرک میں گرفتار ہوچکے ہو۔
Top