Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 119
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو عَمِلُوا : عمل کیے السُّوْٓءَ : برے بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : انہوں نے توبہ کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَاَصْلَحُوْٓا : اور انہوں نے اصلاح کی اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر بیشک تیرا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے جہالت سے برے عمل کیے، پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی، بلاشبہ تیرا رب اس کے بعد یقینا بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ گاروں کو، وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا مشرک یا مسلمان، سب کو توبہ اور اصلاح کے بعد بےانتہا مغفرت اور رحمت کی نوید سنائی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں جہالت کا معنی لاعلمی نہیں بلکہ بےوقوفی اور اکھڑ پن ہے، جو آدمی سے بےعقلی کے کاموں کا ارتکاب کرواتا ہے، جیسا کہ گھر سے نکلنے کی لمبی دعا میں ہے : (اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ۔۔ أَجْھَلَ أَوْ یُجْھَلَ عَلَيَّ) ”اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ۔۔ میں کسی پر جہالت کروں یا کوئی مجھ پر جہالت کرے۔“ [ أبوداوٗد، الأدب، باب ما یقول إذا خرج من بیتہ : 5094۔ ابن ماجہ : 3884، و صححہ الألباني ] اور عمرو بن کلثوم نے کہا ؂ أَلَا لَا یَجْھَلَنْ أَحَدٌ عَلَیْنَا فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا ”خبردار ! ہم پر کوئی جہالت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے، ورنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کریں گے۔“ اس حدیث اور شعر سے جہل کا مفہوم واضح ہوتا ہے جو یہاں مراد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گناہ لاعلمی سے ہو یا جان بوجھ کر، ہوتا ہی بےوقوفی اور جہالت سے ہے، اسلام سے پہلے والے زمانے کو اسی لیے زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (54) ، نساء (18، 19) اور سورة فرقان (63)۔
Top