Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے بھلا دیتے ہیں، اس سے بہتر، یا اس جیسی (اور) لے آتے ہیں، کیا تو نے نہیں جانا کہ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
نسخ کا معنی ہے بعد میں آنے والے حکم کے ساتھ پہلے کسی حکم کو ختم کردینا، جیسے پہلے بیت المقدس قبلہ مقرر ہوا، پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا اور جیسے ہماری شریعت میں پہلی شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کردیے گئے۔ یہودی نسخ کے منکر تھے، اسی لیے انھوں نے عیسیٰ ؑ کو جھٹلایا کہ انھوں نے تورات کے بعض احکام کیوں منسوخ کیے۔ قرآن پر بھی انھوں نے اعتراض کیا کہ جب پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا تھا اور درست تھا تو وہ منسوخ کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے کئی جواب دیے، پہلے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ پہلا حکم درحقیقت ہوتا ہی اتنی مدت کے لیے ہے، نسخ اس مدت کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اس وقت تک وہ پہلا حکم عین حکمت تھا، بعد میں اس جیسے یا اس سے بہتر دوسرے حکم کی ضرورت تھی تو وہ جاری کردیا گیا۔ کائنات میں ہر وقت اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، پھر جنین، پھر بچپن، جوانی، بڑھاپا، موت اور قیامت سب نسخ ہی کی صورتیں ہیں۔ مختلف موسم مثلاً سردی، پھر بہار، پھر گرمی، پھر برسات، اسی طرح رات دن کا چکر اس کی مثالیں ہیں۔ طبیب کا مریض کے لیے ایک نسخہ تجویز کرنا، پھر نئی صورت حال کے لیے دوسرا نسخہ تجویز کرنا بھی اس کی مثال ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلا نسخہ غلط تھا۔ ایک جواب اس اعتراض کا یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنا حکم منسوخ نہ کرسکتا ہو تو وہ عاجز ٹھہرا، چناچہ فرمایا : ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔“ مزید فرمایا : ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔“ وہ بادشاہ ہی کیا ہوا جو پہلے حکم کی جگہ نیا حکم نافذ نہ کرسکے۔ قرآن کے ساتھ قرآن منسوخ ہوسکتا ہے اور سنت بھی، اسی طرح سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہوسکتی ہے اور قرآن بھی، کیونکہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور وحی الٰہی کے ساتھ وحی الٰہی منسوخ ہوسکتی ہے۔ قرآن سے قرآن کے نسخ کی مثال : سورة نساء (15) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کی سزا مقرر فرمائی کہ انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے، پھر سورة نور کے شروع میں زانی مرد اور زانیہ عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ مزید دیکھیے سورة انفال (65، 66) اور مجادلہ (12، 13) قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال : جیسے شروع شروع میں روزے کی حالت میں مغرب کے بعد سو جانے کے بعد کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا منع تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا) [ البقرہ : 187 ] قبلہ کی تبدیلی بھی قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال ہے۔ سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہونے کی مثال : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْہَا وَ نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیْ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، فَأَمْسِکُوْا مَا بَدَا لَکُمْ)”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا سو ان کی زیارت کرو اور میں نے تمہیں تین راتوں سے زیادہ قربانیوں کے گوشت (ذخیرہ کرنے) سے منع کیا تھا، سو انھیں رکھ لو، جب تک تمہاری مرضی ہو۔“ [ مسلم، الأضاحی، باب بیان ما کان من النہی۔۔ : 1977، عن بریدۃ ؓ ] سنت صحیحہ کے ساتھ قرآن کے نسخ کی مثال خواہ وہ متواتر نہ ہو : جیسا کہ سورة نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح حرام ہے، ان میں دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے، پھر فرمایا : (وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ) [ النساء : 24 ] ”ان کے سوا سب عورتوں سے نکاح تمہارے لیے حلال ہے۔“ اس آیت کی رو سے خالہ اور اس کی بھانجی، پھوپھی اور اس کی بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے، مگر رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا تو حرام ہوگیا اور اس پر امت متفق ہے۔ تنبیہ ! درحقیقت یہ سنت کے ساتھ کتاب اللہ سے زائد حکم کی مثال ہے، بعض لوگ کتاب اللہ پر زیادتی کو نسخ کہتے ہیں، ان کے قول کے مطابق یہ نسخ کی مثال ہے، ورنہ شیخ محمد بن صالح عثیمین ؒ نے فرمایا کہ سنت کے ساتھ قرآن کے نسخ کی کوئی قابل اطمینان مثال مجھے نہیں ملی۔ نسخ احکام میں ہوتا ہے خبر میں نہیں، ورنہ ہر جھوٹا شخص، جب اس کی پیشین گوئی یا گزشتہ یا موجود واقعے کی کوئی خبر غلط نکلے، کہہ دے گا وہ منسوخ ہوگئی، جیسے مرزا قادیانی کے مریدوں کا حال ہے۔ بعض آیات و احکام جنھیں باقی رکھنا مقصود نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے، جیسا کہ فرمایا : (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى، اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ) [ الأعلٰی : 6، 7 ] ”ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔ مگر جو اللہ چاہے۔“
Top