Al-Qurtubi - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے
آیت نمبر 106 اس میں پندرہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما ننسخ من ایۃٍ او ننسھا، ننسھا کا عطف ننسخ پر ہے، جزم کی وجہ سے یا کو حذف کیا گیا ہے اور جنہوں نے ننسأھا پڑھا ہے انہوں نے جزم کی وجہ سے ہمزہ کو حذف کردیا ہے اس کا معنی آگے آئے گا نأت یہ جواب شرط ہے۔ یہ احکام میں ایک عظیم آیت ہے اس کا سبب یہ ہے کہ یہود نے جب مسلمانوں سے کعبہ کی طرف منہ کرنے میں حسد کیا اور اس کی وجہ سے اسلام پر طعن کیا اور کہا کہ محمد ﷺ پہلے اپنے اصحاب کو ایک چیز کا حکم دیتا ہے پھر اس سے منع کردیتا ہے۔ پس قرآن ان کی طرف سے ہے اسی وجہ سے قرآن کا بعض، بعض کے مخالف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی واذا بدلنا ایۃٌ مکان ایۃٍ (نحل :101) اور ما ننسخ من ایۃٍ کا ارشاد نازل فرمایا۔ مسئلہ نمبر 2: اس باب کی معرفت بڑی مؤکد ہے اور اس کا عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس کی معرفت سے علماء کو بھی استغناء نہیں اس کا انکار صرف غبی جہلاء ہی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس پر بہت احکام مرتب ہوتے ہیں حرام سے حلال کی معرفت ہوتی ہے۔ ابو البختری نے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت علی ؓ مسجد میں داخل ہوئے جبکہ وہاں ایک شخص لوگوں کو ڈرا رہا تھا۔ حضرت علی ؓ نے پوچھا : یہ اجتماع کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا : ایک شخص لوگوں کو وعظ ونصیحت کر رہا ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : یہ شخص لوگوں کو نصیحت نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہے : میں فلاں ابن فلاں ہوں مجھے پہچانو ! حضرت علی ؓ نے اسے بلایا اور پوچھا : کیا تو ناسخ، منسوخ کا علم رکھتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ہماری مسجد سے نکل جا اس تو وعظ ونصیحت نہ کر۔ دوسری روایت میں ہے، کیا تو ناسخ ومنسوخ کو جانتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں حضرت علی ؓ عنی فرمایا : تو خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔ اس کی مثل حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: عرب کلام میں نسخ دو وجوہ سے ہے : 1۔ ایک اس کا معنی نقل کرنا ہے جیسے ایک کتاب سے دوسری کتاب کو نقل کرنا، اس معنی کے اعتبار سے پورا قرآن منسوخ ہوگا یعنی یہ لوح محفوظ سے نقل ہوا ہے اور بیت العزت کی طرف آسمان دنیا میں اترا ہے۔ اس آیت میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون۔ (الجاثیہ) یعنی ہم اس کے لکھنے اور اس کے اثبات کا حکم دیتے ہیں۔ (1) ۔ 2۔ نسخ کا دوسرا معنی ابطال اور زائل کرنا ہے۔ یہاں یہی مقصود ہے اور یہ لغت میں پھر دو قسموں میں منقسم ہے : (1) کسی شے کو ختم کردینا اور زائل کردینا اور دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کردینا۔ اس سے نسخت الشمس الظل، جب سورج سائے کو مٹادے اور اس کے قائم مقام دوسرے سائے کو کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی معنی ہے : ما ننسخ من ایۃٍ او ننسھا نات بخیر منھا، اور صحیح مسلم میں ہے : لم تکن نبوۃ قط الاتنا سخت یعنی نبوت ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پھرتی رہی یعنی امت کا معاملہ پھرتا رہا۔ ابن فارس نے کہا : نسخ کا معنی کتاب کا نقل کرنا، اور النسخ کا معنی کسی ایسے امر کو ختم کردینا جس پر پہلے عمل ہو رہا تھا پھر تو اسے کسی حادثہ کی وجہ سے ختم کر دے، جیسے کسی خاص امر کے لئے ایک آیت نازل ہوتی پھر دوسری آیت کے ساتھ وہ منسوخ ہوجاتی۔ ہر وہ چیز جو کسی شے کے قائم مقام ہوجائے تو اس نے اسے منسوخ کردیا۔ کہا جاتا ہے : انتسخت الشمس الظل، الشیب الشباب سورج نے سائے کو ختم کردیا، بڑھاپے نے جوانی کو ختم کردیا۔ تناسخ الورثۃ ورثاء دوسرے ورثاء کے بعد مرگئے، اور میراث کی اصل قائمٌ ہے۔ تقسیم نہیں ہوئی۔ اسی طرح تناسخ الازمنۃ والقرون ہے یعنی ہر زمانہ اور ہر قوم پہلے زمانہ اور پہلی قوم کو ختم کردیتی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ چیز کو ختم کردینا اور اس کے قائم مقام دوسری چیز نہ رکھنا۔ جیسے نسخت الریح الاثر (2) ہوا نے اثر مٹا دیا۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : فینسخ اللہ ما یلقی الشیطن (الحج :52) (جو شیطان ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ختم کردیتا ہے) اس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور اس کا بدل مصحف میں ثابت نہیں ہوتا۔ ابو عبید نے کہا : یہ نسخ کی دوسری قسم تھی کہ نبی کریم ﷺ پر ایک سورت نازل ہوتی تھی پھر وہ اٹھا لی جاتی تھی نہ اس کو پڑھا جاتا تھا اور نہ اس کو لکھا جاتا تھا۔ میں کہتا ہوں : اسی سے وہ روایت ہے جو حضرت ابی بن کعب اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ سورة احزاب، طوالت میں سورة بقرہ کے برابر تھی جیسا کہ سورة احزاب میں یہ تفصیل سے بیان ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے جو ابوبکر انباری نے بیان کی۔ فرمایا : مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا : ہمیں نصر بن داؤد نے بیان کیا کہ ایک شخص رات کو اٹھاتا کہ قرآن کی سورت تلاوت کرے تو وہ اس میں سے کچھ بھی پڑھنے پر قادر نہ وا۔ دوسرا اٹھا تو وہ بھی کوئی آیت پڑھنے پر قادر نہ ہوا، تیسرا اٹھا تو وہ بھی اس سورت میں سے کچھ پڑھنے پر قادر نہ ہوا۔ وہ صبح رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ ایک نے کہا میں یارسول اللہ ! کھڑا ہوا تاکہ قرآن کی سورت پڑھوں تو میں اس کی کوئی آیت پڑھنے پر قادر نہ ہوا، دوسرا اٹھا اس نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ میری بھی یہی کیفیت تھی، تیسرا اٹھا اس نے کہا : اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! میری بھی یہی کیفیت تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ سورت گزشتہ رات اللہ تعالیٰ نے منسوخ کردی۔ ایک روایت میں ہے، سعید بن مسیب سنتے تھے جو ابو امامہ بیان کرتے تھے اور انکار نہیں کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر 4: متاخرین علماء اسلام کے ایک طائفہ نے اس کے جواز کا انکار کیا ہے اور ان کے خلاف یہ حجت پیش کی گئی ہے کہ سلف صالحین کا اجماع ہے کہ شریعت میں نسخ واقع ہوا ہے۔ اسی طرح یہود کے ایک گروہ نے بھی نسخ کا انکار کیا ہے، اس کے خلاف یہ حجت پیش کی گئی ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق تورات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی سے نکلنے کے وقت فرمایا : ہر چوپایہ تمہارے لئے اور اولاد کے لئے خوراک ہے اور میں نے یہ تمہارے لئے مطلق رکھا ہے جیسے نبات تمہارے لئے حلال کی ہیں لیکن خون حلال نہیں ہے اسے نہ کھانا پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور بنی اسرائیل پر بہت سے حیوان کر دئیے۔ اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) بھائی کی بہن سے شادی کرتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء پر اس کو حرام کردیا اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا تو اسے ذبح نہ کر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اپنے ان لوگوں کو قتل کریں جو بچھڑے کی پوجا کرتے ہیں پھر ان سے تلوار اٹھانے کا حکم دیا، پہلے وہ اپنی نبوت کے ساتھ مکلف نہ تھے پھر اس کے بعد اس کے ساتھ مکلف ہوئے۔ یہ البداء سے نہیں ہے بلکہ یہ بندوں کو ایک عبادت سے دوسری عبادت کی طرف نقل کرنا ہے اور ایک حکم کو دوسرے حکم کی طرف نقل کرنا ہے اس میں کوئی خاص حکمت ہوتی ہے، جس کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مملکت کا کمال مقصود ہوتا ہے۔ اس میں عقلاء کا کوئی اختلاف نہیں کہ انبیاء کرام کی شریعتوں سے مخلوق کے دنیوی اور اخروی مصالح کا قصد کیا گیا ہے، بدأہ تو تب لازم آتی جب وہ امور کے انجام کو جاننے والا نہ ہوتا اور جو انجام کو جاننے والا ہوتا ہے وہ مصالح کی تبدیلی کے مطابق اپنے خطابات کو تبدیل کرتا ہے، جیسے طبیب اپنے مریض کے احوال کے مطابق خطابات کو بدلتا ہے اس نے اپنی مشیت اور ارادہ سے اپنی مخلوق میں یہ تبدیلی رکھی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا خطاب بدلتا ہے۔ اس کا علم اور اس کا ارادہ تبدیل نہیں ہوتا اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی جہت سے محال ہے۔ یہود نے نسخ اور بداء کو ایک چیز بتایا ہے اسی وجہ سے انہوں نے نسخ کو جائز قرار نہیں دیا، پس وہ گمراہ ہوئے (1) ۔ نحاس نے کہا : نسخ اور البداء کے درمیان فرق یہ ہے کہ نسخ کا مطلب ہے ایک عبادت کو دوسری عبادت کی طرف بدلنا، (مثلاً ) پہلے ایک چیز حلال تھی اسے حرام کردیا، پہلے ایک چیز حرام تھی پھر اسے حلال کردیا اور البداء یہ ہے کہ پہلے جس چیز پر عزم کیا گیا ہے اسے ترک کردینا جیسے تو کہتا ہے تم آج فلاں کے پاس جاؤ پھر تو کہتا ہے اس کے پاس نہ جاؤ۔ تیرے لئے پہلے قول سے عدول ظاہر ہوتا ہے یہ انسان کو لاحق ہوتا ہے ان کے نقصان اور کمی کی وجہ سے۔ اسی طرح اگر تو کہے اس سال تو یہ چیز کاشت کر پھر تو کہے یہ نہ کر، تو یہ البداء ہے۔ مسئلہ نمبر 5: ناسخ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے مجازاً خطاب شرعی کو ناسخ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے نسخ واقع ہوتا ہے (2) ۔ جس طرح مجازاً محکوم فیہ کو ناسخ کا نام دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : رمضاں کے روزوں نے عاشوراء کے روزہ کو منسوخ کردیا۔ منسوخ وہ ہوتا ہے جو زائل کیا جاتا ہے اور منسوخ عنہ وہ ہوتا ہے جو زائل کی گئی عبات کا مکلف ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: ہمارے ائمہ کی عبارات ناسخ کی تعریف میں مختلف ہیں۔ اہل سنت میں سے ماہر علماء کی رائے یہ ہے کہ پہلے حکم شرعی کو بعد میں آنے والے خطاب سے زائل کرنا ہے۔ قاضی عبد الوہاب اور قاضی ابوبکر نے بھی اسی طرح تعریف کی ہے اور انہوں نے یہ زیادہ لکھا ہے اگر یہ والا حکم نہ آتا تو پہلا حکم ہی باقی رہتا (3) ۔ ان دونوں حضرات نے نسخ کے لغوی معنی کا بھی لحاظ رکھا ہے کیونکہ نسخ کا لغوی معنی اٹھا دینا اور زائل کرنا ہے اور انہوں نے حکم عقلی سے احتراز کیا ہے۔ خطاب کا لفظ ذکر کیا تاکہ وجوہ دلالت نص، ظاہر، مفہوم وغیرہ کو شامل ہوجائے۔ اور قیاس اور اجماع کو خارج کر دے کیونکہ قیاس اور اجماع میں نہ تو نسخ متصور ہو سکتا ہے نہ ان کے ساتھ نسخ ہو سکتا ہے اور تراخی کے ساتھ مقید کیا ہے کیونکہ اگر بعد والا حکم پہلے سے متصل ہو تو وہ حکم کا بیان ہوتا ہے۔ ناسخ نہیں ہوتا یا دوسرا کلام، پہلے کلام کو اٹھانے والا ہوتا ہے۔ جیسا قم لا تقم، تو کھڑا ہو تو کھڑا نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 7: منسوخ ہمارے اہل سنت کے ائمہ کے نزدیک وہ حکم ہوتا ہے جس کی ذات ثابت ہو نہ اس کی مثل جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ خطاب، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مستقبل میں ثابت حکم کی مثال آنے والی نص سے زائل ہونے والا ہے اور اس قول کی طرف ان کی رہنمائی ان کے مذہب نے کی ہے کہ اوامر مراد ہوتے ہیں اور حسن، حسن کی ذاتی صفت ہے اور اللہ کی مراد حسن ہے اس کو ہمارے علماء نے اپنی کتب میں رد کیا ہے۔ (4) مسئلہ نمبر 8: ہمارے علماء کا اختلاف ہے کہ کیا اخبار میں نسخ داخل ہوتا ہے یا نہیں ؟ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ نسخ، اوامر ونواہی کے ساتھ خاص ہے اور خبر میں نسخ داخل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے (1) ۔ بعض نے فرمایا : خبر جب حکم شرعی اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہو تو اس کا نسخ جائز ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن ثمرت النخیل والاعناب تتخذون منہ سکراً (النمل :67) اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ مسئلہ نمبر 9: عموم سے تخصیص وہم دلاتی ہے کہ یہ نسخ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ مخصص کو عموم شامل ہی نہیں ہوتا، اگر عموم کسی شے کو شامل ہو پھر اس شے کو عموم سے نکالا جائے تو یہ نسخ ہوگا تخصیص نہ ہوگی (2) ۔ اور متقدمین علماء مجازاً تخصیص پر نسخ کا اطلاق کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 10: کبھی شرع میں ایسی اخبار وارد ہوتی ہے جن کا ظاہر مطلق اور استغراق ہوتا ہے اور ان کی تقیید دوسری جگہ وارد ہوتی ہے، پس وہ اطلاق اٹھ جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا سالک عبادی عنی فانی قریبٌ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرہ : 186) جب پوچھیں آپ سے (اے میرے حبیب) میرے بندے میرے متعلق تو (انہیں بتاؤ) میں (ان کے) بالکل نزدیک ہوں قبول کرتا ہوں دعا، دعا کرنے والے کی ) ۔ اس آیت میں حکم کا ظاہریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کرنے والے کی دعا ہر حال میں قبول فرماتا ہے لیکن دوسرے مقام پر اس کی قید آئی ہے : فیکشف ما تدعون الیہ ان شاء (انعام : 41) وہ شخص جسے بصیرت نہیں ہوتی وہ گمان کرتا ہے کہ یہ اخبار میں نسخ کے باب سے ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اطلاق اور تقیید کے باب سے ہے۔ اس مسئلہ کا زیادہ بیان اپنے مقام پر آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ مسئلہ نمبر 11: ہمارے علماء نے فرمایا (3): اثقل (بھاری حکم) کا نسخ اخف (ہلکے حکم) کی طرف جائز ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے دس کے مقابلہ میں ایک شخص کے ٹھہرے رہنے کے حکم کو دو کے مقابلہ میں ایک شخص کے ٹھہرے رہنے کے ساتھ منسوخ کردیا۔ اور اخف حکم سے اثقل کی طرف نسخ بھی جائز ہے جیسے عاشوراء کے حکم کو رمضان کے روزوں سے منسوخ کردیا۔ اس کا بیان روزوں والی آیت میں آئے گا۔ کبھی ایک حکم کو اس جیسے حکم سے منسوخ کیا جاتا ہے جیسے ایک قبلہ کو دوسرے قبلہ سے منسوخ کردیا۔ کبھی ایک چیز کو منسوخ کیا جاتا ہے اور اس کا بدل نہیں دیا جاتا جیسے نبی کریم ﷺ سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کے حکم کو منسوخ کردیا۔ قرآن کو قرآن کے ساتھ منسوخ کیا جاتا ہے اور سنت کو عبارت سے منسوخ کیا جاتا ہے اور عبارت سے مراد “ الخبر المتواتر القطعی ” ہے اور خبر واحد کو خبر واحد سے منسوخ کیا جاتا ہے۔ ماہرین اعمۃ کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن، سنت سے بھی منسوخ ہوتا ہے اور یہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد میں موجود ہے : لا وصیۃ لوارث کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے (4) ۔ یہ امام مالک کے ظاہر مسائل سے ہے۔ امام شافعی (5) اور ابو الفرج مالکی نے اس کا انکار کیا ہے۔ پہلا قول صحیح ہے، اس دلیل سے کہ یہ سب اللہ کا حکم ہے اور اللہ کی طرف سے ہے اگرچہ اسماء میں اختلاف ہے۔ مثلاً شادی شدہ زانی جس کو رجم کیا جاتا ہے اس سے کوڑوں کی سزا ساقط ہے اور یہ سنت سے نبی کریم ﷺ کے فعل سے ساقط ہے اور یہ واضح ہے۔ ماہرین علماء کا یہ بھی نظریہ ہے کہ سنت، قرآن کے ساتھ منسوخ ہوتی ہے اور یہ قبلہ کی تحویل میں موجود ہے کیونکہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا کتاب اللہ میں نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فلا ترجعوھن الی الکفار (الممتحنہ :10) ان عورتوں کا رجوع، نبی کریم ﷺ کا قریش سے صلح کی بنا پر ہوا تھا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ عقلاً خبر واحد سے قرآن کا نسخ جائز ہے۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ شرعاً واقع ہوا ہے یا نہیں۔ ابو المعالی وغیرہ کا خیال ہے کہ مسجد قبا کے واقعہ میں واقع ہوا تھا اس کا بیان آگے آئے گا۔ ایک قوم نے اس کا انکار کیا ہے۔ قیاس کے ساتھ نص کا نسخ صحیح نہیں ہے، کیونکہ قیاس کی شرائط میں سے ہے کہ وہ نص کے مخالف نہ ہو۔ یہ نسخ سب نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں تھا، لیکن نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد اور شریعت کے استقرار کے بعد، امت کا اجماع ہے کہ نسخ نہیں ہے اسی وجہ سے اجماع نہ منسوخ ہوتا ہے نہ اس کے ساتھ نسخ واقع ہوتا ہے کیونکہ اجماع کا انعقاد وحی کے ختم ہونے کے بعد واقع ہوا ہے۔ جب ہم کوئی ایسا اجماع پاتے ہیں جو نص کے مخالف ہوتا ہے تو پھر یہ جانا جائے گا کہ اجماع کسی ناسخ نص کی طرف منسوب ہے جسے ہم نہیں جانتے۔۔۔۔ مخالف نص ایسی ہوتی ہے جس پر عمل چھوڑا جاتا ہے اور اس کا مقتضیٰ منسوخ ہوتا ہے لیکن اس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوتی جیسے قرآن میں سال کی عدت والی آیت تلاوت کی جاتی ہے، اس میں غور کرو یہ ایک نفیس گفتگو ہے۔ کبھی حکم منسوخ ہوتا ہے، تلاوت منسوخ نہیں ہوتی جیسے نبی کریم ﷺ سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم، کبھی تلاوت منسوخ ہوتی ہے حکم منسوخ نہیں ہوتا جیسے آیت رجم۔ کبھی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوتے ہیں اور اس سے سیدنا صدیق اکبر ؓ کا قول ہے ہم پڑھتے تھے : لا ترغبوا عن أبائکم فانہ کفر۔ (اپنے آباء سے انحراف نہ کرو کیونکہ یہ کفر ہے ) ۔ اس کی مثالیں کثیر ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جس کو ناسخ کا حکم نہ پہنچا ہو وہ پہلے حکم کا مکلف ہے اس کا بیان تحویل قبلہ میں آئے گا۔ ماہرین کے نزدیک حکم، عمل سے پہلے بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ یہ ذبیح کے واقعہ میں موجود ہے اسی طرح نمازیں پچاس فرض تھیں عمل سے پہلے پانچ نمازوں سے منسوخ کردی گئیں جیسا کہ سورة الاسراء اور سورة الصافات میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 12: ناسخ کی پہچان کے طرق : (1) نص کے الفاظ نسخ پر دلالت کرتے ہوں جیسے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور، فذوروھا (1) ۔ (میں نے تمہیں قبور کی زیارت سے منع کیا تھا۔ پس (اب) زیارت کیا کرو) ۔ میں نے تمہیں مشروب پینے سے منع کیا تھا مگر چمڑے کے برتنوں میں۔ پس اب ہر برتن میں مشروب پیو مگر نشہ دینے والا مشروب نہ پیو۔ (2) راوی تاریخ ذکر کر دے۔ مثلاً وہ کہے : میں نے خندق کے سال سنا تو اس سے پہلے والا حکم منسوخ معلوم ہوجائے گا یا کہے کہ فلاں فلاں حکم منسوخ ہے۔ (3) امت کا اجماع ہوجائے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور اس کا ناسخ بعد میں آنے والا ہے۔ یہ اصول فقہ میں تفصیلی مباحث موجود ہیں ہم نے بقدر ضرورت ذکر کردیا ہے۔ واللہ الموفق للھدایۃ۔ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت کی توفیق بخشنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 13: جمہور قراء نے ما ننسخ نون کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ اس معنی پر ظاہر دلالت کرتا ہے کہ ہم کسی آیت کا حکم اٹھا دیتے ہیں اور اس کی تلاوت کو باقی رکھتے ہیں جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔ اس معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ ہم آیت کا حکم اور تلاوت اٹھا دیتے ہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ ابن عامر نے ننسخ نون کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ انسخت الکتاب سے مشتق ہے اس معنی پر کہ میں نے اسے منسوخ پایا۔ ابو حاتم نے کہا : یہ غلط ہے۔ الفارسی ابو علی نے کہا : یہ لغت نہیں ہے کیونکہ نسخ اور انسخ ایک معنی میں ہیں۔ یہ نہیں کہا جاتا مگر یہ کہ اس کا معنی ہو ہم اس کو منسوخ نہیں پاتے۔ جیسے تو کہتا ہے : احمدت الرجل وابخلتہ، یعنی میں نے اسے محمود اور بخیل پایا۔ ابو علی نے کہا : ہم اسے منسوخ نہیں پاتے مگر یہ کہ ہم اسے منسوخ کردیں۔ معنی میں دونوں قراء یتیں متفق ہیں اور لفظ میں مختلف ہیں۔ بعض نے فرمایا : ما ننسخ کا مطلب ہے ہم تیرے لئے جسے نسخ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : نسخت الکتاب جب تو کتاب کو لکھ لے۔ وانتسختہ غیری جب تو اس کے لئے لکھ دے۔ مکی نے کہا : ہمزہ کا متعدی کے لئے ہونا جائز نہیں کیونکہ اس طرح معنی تبدیل ہوجاتا ہے۔ معنی پھر یہ ہوجائے گا : اے محمد ! ﷺ ہم کوئی آیت تجھ پر اتارتے اور انساخہ ایاھا، کا مطلب ہے : انزالھا علیہ۔ معنی یہ ہوگا ہم تجھ پر کوئی اتارے ہیں یا ہم اسے بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی مثل لاتے ہیں۔ معنی یہ ہوگا کہ ہر آیت جو نازل ہوئی اس سے بہتر لائی گئی، تو اس طرح سارا قرآن منسوخ ہوجائے گا اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ قرآن کا تھوڑا حصہ منسوخ ہوا ہے جب افعل اور فعل کا ہم معنی ہونا ممتنع ہوا کیونکہ ایسا سنا نہیں گیا تو معنی کے فساد کی وجہ سے ہمزہ کا متعدی ہونا بھی ممتنع ہوتا۔ پس یہی صورت باقی رہتی ہے کہ یہ اس باب سے ہو : احمدتہ وابخلتہ (میں نے اسے محمود اور بخیل پایا) ۔ مسئلہ نمبر 14: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او ننسھا ابو عمر و اور ابن کثیر نے نون کے فتحہ، سین اور ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابو عمر، حضرت ابن عباس، حضرت عطا، حضرت مجاہد، حضرت ابی بن کعب، عبید بن عمیر، النخفی، ابن محیصن وغیرہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔ اس کا معنی تاخیر کرنا ہے۔ یعنی ہم اس کے الفاظ کے نسخ کو مؤخر کرتے ہیں یعنی ہم اسے “ ام الکتاب ” میں چھوڑ دیتے ہیں پس وہ منسوخ نہیں ہوتی۔ یہ عطا کا قول ہے اور عطا کے علاوہ کا قول ہے کہ اوننسأھا کا معنی ہے : ہم وقت معلوم تک نسخ کو مؤخر کرتے ہیں۔ یہ عربوں کے قول نسأت ھذا الامر سے مشتق ہے یعنی جب تو کام کو مؤخر کر دے۔ اس سے یہ قول ہے : بعتہ نسأ۔ جب تو اس میں تاخیر کر دے (1) ۔ ابن فارس نے کہا : عرب کہتے ہیں : نسأاللہ فی اجلک وانسأاللہ اجلک۔ اللہ تعالیٰ تیری عمر میں اضافہ کرے، قد اتنسأالقوم، جب قوم دور ہوجائے، نسأتھم، میں نے اسے پیچھے کردیا۔ معنی یہ ہے کہ ہم اس کے نزول کو مؤخر کرتے ہیں یا اسے منسوخ کرتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ہم تم سے اس طرح اسے لے جائیں گے کہ تم نہ پڑھو گے اور نہ یاد کرو گے۔ باقی قراء نے ننسھا نون کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، نسیان سے مشتق کیا ہے جس کا معنی ترک ہے، یعنی ہم اسے چھوڑ دیں گے نہ تبدیل کریں گے اور نہ منسوخ کریں گے۔ یہ حضرت ابن عباس اور سدی کا قول ہے (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نسوا اللہ فنسیھم (توبہ :67) یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑا، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب میں چھوڑ دیا۔ اس قراءت کو ابو عبید اور ابو حاتم نے پسند کیا۔ ابو عبید نے کہا : میں نے نعیم القاری کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے خواب میں ابو عمرو کی قراءت پڑھی تو آپ نے مجھ پر صرف دو حرفوں کی تبدیلی فرمائی۔ فرمایا : میں نے پڑھا أرنا تو آپ نے فرمایا ارنا۔ ابو عبید نے کہا : دوسرا حرف میں او ننسأھا خیال کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : او ننسھا۔ الازہری نے ننسھا حکایت کیا ہے۔ یعنی ہم اسے چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : انسیتہ الشیء یعنی میں نے اسے ترک کرنے کا حکم دیا۔ نسیتۃ، میں نے اسے ترک کردیا۔ شاعر نے کہا : ان علی عقبۃ اقضیھا لست بنا سیھا ولا منسیھا اگر میں اپنے اوپر اونٹوں کو چرانے کا فیصلہ کروں گا تو میں اسے ترک نہیں کروں گا اور نہ اسے ترک کا حکم دوں گا۔ زجاج نے کہا : نون کے ضمہ کے ساتھ قراءت اس میں ترک کے معنی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ یہ نہیں کہا جاتا : انسی بمعنی ترک ہے اور جو علی بن ابی طلحہ بن ابی عباس سے روایت کیا ہے او ننسھا فرمایا : ہم اسے چھوڑ تے ہیں اسے تبدیل نہیں کرتے (2) یہ صحیح نہیں ہے۔ شاید حضرت ابن عباس نے فرمایا ہو نترکھا اور ضبط نہ کیا گیا ہو۔ اہل لغت میں سے اکثر کا قول یہ ہے کہ اوننسھا کا معنی ہے : ہم تمہارے لئے اس کا ترک مباح کرتے ہیں۔ یہ نسیی سے مشتق ہے جب کوئی کسی چیز کو چھوڑ دے پھر تعدیہ کیا گیا۔ ابو علی وغیرہ نے فرمایا : اور یہ قابل توجہ ہے۔ کیونکہ اس کا معنی ہے : ہم تجھے بنا دیں گے کہ تم اسے چھوڑ دو (3) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ نسیان سے ہے جس کا معنی ہے یاد نہ ہونا، اس معنی پر او ننسکھایا محمد فلا تذکرھا۔ اے محمد ! ﷺ ہم یہ بھلا دیں گے پس آپ اسے یاد نہیں کریں گے۔ ہمزہ کے ساتھ نقل کیا گیا اور فعل کو دو مفعولوں کی طرف متعدی کیا گیا اور وہ نبی کریم ﷺ اور ھا ضمیر ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کا اسم محذوف ہے۔ مسئلہ نمبر 15: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نأت بخبرٍ منھا یہاں کبر کا لفظ تفضیل کا صیغہ ہے۔ معنی یہ ہے کہ اے لوگو ! اس جلدی میں تمہارے لئے زیادہ نفع ہے اگر ناسخ اخف ہو اور تاخیر میں تمہارے لئے زیادہ نفع ہے اگر ناسخ (آیت) زیادہ مشکل ہو اور اگر ناسخ ومنسوخ برابر ہوں تو اس کی مثل میں تمہارے لئے زیادہ نفع ہے (4) ۔ امام مالک نے فرمایا : منسوخ کی جگہ محکم آیت تمہارے لئے زیادہ نفع بخش ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : آخرت کے اعتبار سے زیادہ نفع بخش ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایک دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتا۔ اس کی مثال یہ ہے : من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منھا۔ یعنی جو نیکی کرے گا اس کے لئے اس سے بہتر نفع اور اجر ہوگا۔ اس خیر سے مراد افضل نہیں ہے اور پہلے قول کی دلیل او مثلھا کے کلمات ہیں۔
Top