Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا سب کے سب اس سے اتر جاؤ، پھر اگر کبھی تمہارے پاس میری طرف سے واقعی کوئی ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا سو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
(قُلْنَا مِنْهَا جَمِيْعًا ۚ) توبہ کی قبولیت کے بعد پھر پہلا حکم دہرایا، مقصد یہ کہ گناہ کی معافی کے باوجود اب تمہیں اور تمہاری اولاد سب کو زمین ہی پر رہنا ہوگا، جس کی خلافت کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جنت میں واپسی کے لیے تمہیں اس ہدایت اور راستے پر چلنا ہوگا جو میری طرف سے تمہارے پاس آئے گی۔ (فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى) مخاطب آدم ؑ اور ان کی بیوی ہیں، مگر مراد ان کی اولاد ہے، یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء و رسل بذریعہ وحی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ ہدایت کا یہ سلسلہ آدم ؑ سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوگیا۔ آپ ﷺ آخری نبی ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی آخری وحی الٰہی ہے، اس دوران میں کتنے نبی اور رسول آئے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ دیکھیے سورة نساء، حاشیہ آیت 164۔ آج ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دو ہی چیزیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ”میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی ﷺ کی سنت۔“ [ المؤطا، القدر، باب النہی عن القول بالقدر : 3۔ مستدرک حاکم : 1؍171، ح : 318۔ الصحیحۃ : 176 ] (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ) پہلے ”فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى“ میں اپنی طرف سے ہدایت آنے کی بات کی پھر (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ) میں ”ھُدَاىَ“ کو یائے متکلم کی طرف مضاف کیا، یعنی ”پھر جو میری ہدایت کی پیروی کرے۔“ معلوم ہوا ہدایت صرف وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے۔ لوگوں کی رائے کبھی ہدایت قرار نہیں پاسکتی خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں۔ (فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ) خوف آنے والی کسی چیز سے ڈر کو اور حزن ہاتھ سے نکل جانے والی کسی چیز پر غم کو کہتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کی پیروی کریں گے وہ آخرت میں نہ دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے، جیسا کہ کفار کو افسوس ہوگا۔ [ الأنعام : 27] اور نہ قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے انھیں کوئی غم ہوگا۔ (دیکھیے الأنبیاء : 103) فرمایا : (وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ) [ النمل : 89 ] ”اور وہ اس دن بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔“
Top