Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا اترو یہاں سے سب، تو اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
قُلْنَا اهْبِطُوۡا مِنْهَا جَمِيۡعًا: یہ الفاظ دو مرتبہ دہرائے گئے ہیں ایک مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش کے بعد اور پھر دوبارہ ان کی تو بہ کے بعد- لغزش کے بعد اس کا ذکر اس لغزش کا نتیجہ بیان کرنے کے لئے ہوا ہے اور توبہ کے بعد اس امتحان کی حکمت بیان کرنے کے لئے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اب تمہیں دنیا میں بھیج کر تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تاکہ تمہارے برے اور بھلے میں امتیاز ہو سکے تو جو اس امتحان میں پورے اتریں گے وہ اس جنت کے وارث ہوں گے اور جو اس امتحان میں فیل ہو جائیں گے وہ اس جنت سے محروم رہیں گے۔ فَاِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّيۡ هُدًى: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کے لئے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کرنے کا پہلا وعدہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش سے انسانی فطرت اور انسانی عقل کا وہ ضعف ظاہر ہو گیا جو انسان کو وحی الٰہی کی رہنمائی اور انبیا علیہم السلام کی دستگیری کا محتاج ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کی اس کمزوری پر نگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بطور تسکین وتسلی یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے روشنی بھیجے گا تو جو لوگ اس روشنی کی قدر کریں گے ان کے لئے نہ کوئی خوف ہو گا نہ کوئی غم۔ “نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم”کے الفاظ قرآن مجید میں جنت کی تعبیر کے لئے خاص ہیں۔ غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جنت کی تعبیر کے لئے یہ الفاظ بہت جامع ہیں۔ خوف کسی پیش آنے والے خطرے کا ہوا کرتا ہے اور حزن ماضی یا حاضر کے کسی خسارہ کا۔ ایسی جگہ، جہاں نہ ماضی کا کوئی غم ہو نہ مستقبل کا کوئی خطرہ، جنت ہی ہو سکتی ہے۔
Top