Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
انھوں نے کہا اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو، اگر تم کرنے والے ہو۔
قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ : یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا تو نیکی اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے۔ بدی کے غلبے کی صورت میں جب اس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی اور وہ مکمل طور پر لاجواب ہوجاتا ہے تو اپنے مخالف کو دھمکیاں دیتا ہے۔ دیکھیے نوح ؑ کی قوم (شعراء : 116) ، ابراہیم ؑ کو ان کے والد کی دھمکی (مریم : 46) ، لوط ؑ کی قوم (شعراء : 167) ، شعیب ؑ کی قوم (اعراف : 88) ، فرعون کی موسیٰ ؑ کو دھمکی (شعراء : 29) اور جادوگروں کو دھمکی (شعراء : 49)۔ پھر اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے لاجواب کردینے والے حریف کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہیم ؑ کی قوم بھی جب دلیل میں ہر طرح لاجواب ہوگئی تو ابراہیم ؑ کی جان کے درپے ہوگئی۔ مشورہ ہوا کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو۔ دیکھیے سورة عنکبوت (24) آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ اپنے معبودوں کا انتقام لینے کی اور ان کی نصرت کی یہی صورت ہے کہ اسے جلا کر راکھ بنادو۔ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : یہ الفاظ ان کے ضمیر کی کشمکش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اول تو ابراہیم کو نقصان پہنچانے والے تمہارے کسی اقدام کا کوئی جواز نہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہے، مار ڈالنا نہیں، لیکن اگر تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور تم نے ضرور ہی اس کے خلاف کچھ کرنا ہے تو پھر معمولی سزا مت سوچو۔ اپنے معبودوں کی مدد کرتے ہوئے اس کا قصہ نہایت عبرت ناک سزا کے ساتھ ختم کرو، تاکہ آئندہ کوئی اس بحث کی جرأت ہی نہ کرے۔ (بقاعی)
Top