Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو شخص یہ گمان کرتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں کبھی اس کی مدد نہیں کرے گا تو وہ ایک رسی آسمان کی طرف لٹکائے، پھر کاٹ دے، پھر دیکھے کیا واقعی اس کی تدبیر اس چیز کو دور کر دے گی جو اسے غصہ دلاتی ہے۔
مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا۔۔ : ”سَبَبٌ“ رسی۔ ”اَلسَّمَاء“ ”سَمَا یَسْمُوْ“ (ن) سے ہے جس کا معنی ہے بلند ہونا۔ آسمان کو اس کی بلندی کی وجہ سے ”سماء“ کہتے ہیں، اس لیے بادل کو بھی ”سماء“ کہہ لیتے ہیں اور چھت کو بھی۔ مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَاکی ایک تفسیر وہ ہے جو طبری نے ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے کہ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں محمد ﷺ کی مدد نہیں کرے گا، وہ چھت سے ایک رسی باندھے، پھر اس کے ساتھ پھانسی لے کر اپنا گلا گھونٹ لے اور مرجائے اور دیکھے، کیا اس کے ایسا کرنے سے اس کے غصے اور حسد کی آگ بجھتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمد ﷺ کی نصرت پر اس کے سینے میں بھڑک رہی ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا وہ بیشک پھانسی لے کر مرجائے، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے رسول کی نصرت یقیناً فرمائے گا۔ چونکہ ہر چیز کا اللہ کے ہاں ایک وقت مقرر ہے، اس لیے نصرت میں دیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد کبھی کرے گا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو یقیناً اپنے تمام رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا اور آخرت میں مدد فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ) [ المؤمن : 51 ] ”بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“ اس تفسیر پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے پہلے یا بعد میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر نہیں آیا تو ”اس کی مدد نہیں کرے گا“ میں ”اس“ سے رسول اللہ ﷺ کیسے مراد ہوسکتے ہیں ؟ جواب اس کا یہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ضمیر لوٹانے کے لیے پہلے آپ کا ذکر ہونا ضروری نہیں، کیونکہ آپ کا ذکر ہر مومن کے ذہن میں موجود ہے۔ اس لیے الفاظ میں پہلے آپ ﷺ کا ذکر نہ بھی ہو تو حرج نہیں۔ دوسری تفسیر وہ ہے جو طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کی ہے کہ جو شخص (اپنے متعلق) یہ گمان کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں (اس کی کبھی مدد نہیں کرے گا) اسے کبھی رزق نہیں دے گا، وہ اوپر کی طرف رسی لٹکا کر اپنا گلا گھونٹ لے، پھر دیکھے۔۔ یعنی جو شخص اللہ کی نصرت پر یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ایسے ناامید شخص کو چاہیے کہ وہ پھانسی لے کر مرجائے، پھر دیکھے کہ کیا اس سے اس کی امید برآتی ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ اگر تم فلاں بات پر یقین نہیں کرتے تو جاؤ دیوار سے ٹکر مار کر مرجاؤ۔ شاہ عبد القادر ؓ نے اس آیت کی ایک بہت عمدہ تفسیر فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں : ”دنیا کی تکلیف میں جو اللہ تعالیٰ سے ناامید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزوں کی پوجا کرے، جن کے ہاتھ نہ برا ہے نہ بھلا، وہ اپنے دل کو سمجھانے اور تسلی دینے کے لیے یہ صورت قیاس کرلے کہ جیسے ایک شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے، اگر چڑھ نہیں سکتا تو توقع تو ہے کہ رسی اوپر کھینچے تو چڑھ جاوے۔ جب رسی توڑ دی پھر کیا توقع ؟ رسی کہا اللہ کی امید کو اور اس رسی کو آسمان کی طرف تانے یعنی اونچان کی طرف۔“ (موضح) اس تفسیر اور اس سے پہلی تفسیر دونوں میں اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ) سے بھی واضح ہو رہا ہے۔
Top