Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کا اعلان کردے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ۔۔ : حج کا لفظی معنی قصد ہے، مراد اللہ کے گھر کا قصد ہے، اس نیت سے کہ وہ قولی، بدنی اور مالی عبادات ادا کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے یہاں مقرر فرمائی ہیں۔ ”رِجَالًا“ ”رَاجِلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”نَاءِمٌ“ کی جمع ”نِیَامٌ“ ہے، یعنی پیدل چلنے والے۔ ”ضَامِرٍ“ سواری کا وہ جانور جسے چارے کی قلت اور سفر نے تھکا کر دبلا کردیا ہو۔ ”فَجٍّ“ دو پہاڑوں کے درمیان کھلے راستے کو کہتے ہیں، مکہ کے راستے میں اکثر پہاڑوں سے گزر ہوتا ہے، اس لیے اس کے راستوں کو ”فَجٍّ“ کہہ دیا ہے۔ ”عَمِيْقٍ“ کا لفظی معنی گہرا ہے، مراد دور کا سفر ہے، دور کی مسافت کو کنویں کی گہرائی سے مشابہت دی ہے۔ پنجابی میں اسے ”ڈونگھے پینڈے“ کہتے ہیں۔ 3 حج کے اعلان سے پہلے اپنے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے کے لیے آنے والوں کی خاطر پاک صاف کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا مہمانوں کی آمد سے پہلے گھر کی صفائی ہونی چاہیے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو کعبہ کی تعمیر کے بعد حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ان بیشمار سواریوں پر سوار ہو کر آئیں گے، جو بہت گہرے اور دور دراز راستوں کو طے کرتی ہوئی آئیں گی اور سفر کی دوری کی وجہ سے لاغر ہوچکی ہوں گی۔ ”كُلِّ ضَامِرٍ“ سے مراد لاغر سواریوں کی کثرت ہے، کیونکہ ہر لاغر سواری تو مکہ نہیں جاتی۔ عربی میں ”کُلٌّ“ کا لفظ کثرت کے لیے بھی آتا ہے، جیسا کہ عنترہ کے ان شعروں میں ”کُلٌّ“ کا لفظ تین دفعہ کثرت کے معنی میں آیا ؂ جَادَتْ عَلَیْہِ کُلُّ بَکْرَۃِ حَرَّۃٍ فَتَرَکْنَ کُلَّ قَرَارَۃٍ کَالدِّرْھَمِ سَحًّا وَ تَسْکَابًا فَکُلَّ عَشِیَّۃٍ یَجْرِيْ عَلَیْھَا الْمَاءُ لَمْ یَتَصَرَّمِ (ابن عاشور) ابراہیم ؑ نے یہ اعلان کیسے کیا ؟ اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں ہے : ”جب اللہ تعالیٰ نے حج کی دعوت کے لیے اعلان کرنے کا حکم دیا تو ذکر کیا جاتا ہے کہ ابراہیم ؑ نے عرض کی، پروردگار ! میں لوگوں تک یہ پیغام کیسے پہنچاؤں، میری تو آواز ہی ان تک نہیں پہنچے گی ؟ فرمایا، تم منادی کرو، پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ تو آپ نے اپنے مقام پر، بعض نے کہا پتھر پر، بعض نے کہا صفا پر اور بعض نے کہا جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر اعلان کیا : ”لوگو ! تمہارے رب نے گھر بنایا ہے، تم اس کا حج کرو۔“ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ جھک گئے، حتیٰ کہ یہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچ گئی اور جو ماؤں کے شکم یا باپوں کی پشت میں تھے ان کے کانوں میں بھی پہنچ گئی۔ ہر پتھر، اینٹ یا درخت جس نے اسے سنا اس نے بھی اور جس شخص کے متعلق اللہ نے قیامت تک حج کرنا لکھا تھا، سب نے جواب میں کہا : ”لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ“ یہ ان روایتوں کا مضمون ہے جو ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور کئی ایک سلف سے آئی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے انھیں پورے طول سے نقل کیا ہے۔“ ابن کثیر ؓ کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات مروی نہیں، اوپر نقل کردہ روایات میں ”ذکر کیا جاتا ہے“ ، ”بعض نے کہا“ ، ”کہا جاتا ہے“ اور ”واللہ اعلم“ کے الفاظ ابن کثیر کی ان روایات کی صحت میں تردد کو ظاہر کر رہے ہیں۔ تابعین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس اعلان کے وقت وہاں موجود نہیں تھے اور نہ انھوں نے اپنا ذریعہ بتایا ہے۔ رہی ابن عباس ؓ کی روایت تو اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر لکھتے ہیں کہ اسے ابن ابی شیبہ (مصنف : 11؍518) اور حاکم (المستدرک : 2؍388) دونوں نے جریر عن قابوس عن ابیہ عن ابن عباس کے طریق سے مختصراً بیان کیا ہے، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، لیکن قابوس ”لَیِّنُ الْحَدِیْثِ“ (کمزور حدیث والا) ہے، جیسا کہ تقریب میں ہے۔ ابن عباس ؓ سے یہ روایت ثابت بھی ہو تو معلوم نہیں انھوں نے یہ کہاں سے لی ہے ؟ کیونکہ نہ خود اس وقت موجود تھے اور نہ انھوں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ابراہیم ؑ کی آواز ساری دنیا اور تمام ارواح تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں، مگر یہ بات کسی معتبر طریقے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ ابن عاشور ؓ لکھتے ہیں کہ ابراہیم ؑ ”رَحَّالَۃٌ“ تھے، یعنی بہت سفر کیا کرتے تھے، چناچہ انھوں نے حسب استطاعت اس حکم پر عمل کیا اور ہر اس مقام پر حج کا اعلان کیا جہاں وہ اپنے سفروں کے دوران گزرے یا پہنچے۔ پھر ان کے بعد ہمارے نبی کریم ﷺ نے یہ اعلان فرمایا، اب دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں یہ اعلان نہ پہنچا ہو اور جہاں سے لوگ سفر کرکے حج کے لیے نہ پہنچتے ہوں۔ سعودی حکومت کا اندازہ ہے کہ دس پندرہ سال تک حاجیوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سارا سال عمرہ کے لیے آنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ”يَاْتُوْكَ رِجَالًا“ (تیرے پاس آئیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ؑ ہر سال حج کے موقع پر خود وہاں موجود ہوتے تھے، یا مراد ہے کہ حج پر جانے والا ہر شخص ابراہیم ؑ کی دعوت پر گویا انھی کے پاس جاتا ہے۔
Top