Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 26
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب بَوَّاْنَا : ہم نے ٹھیک کردی لِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے لیے مَكَانَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی جگہ اَنْ : کہ لَّا تُشْرِكْ : نہ شریک کرنا بِيْ : میرے ساتھ شَيْئًا : کسی شے وَّطَهِّرْ : اور پاک رکھنا بَيْتِيَ : میرا گھر لِلطَّآئِفِيْنَ : طواف کرنے والوں کے لیے وَالْقَآئِمِيْنَ : اور قیام کرنے والے وَالرُّكَّعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : سجدہ کرنے والے
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین کردی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع، سجود کرنے والوں کے لیے پاک کر۔
ۧوَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ : ”بَوَّاْنَا“ (تَفْعِیْل) جگہ دینا، جگہ مقرر کرنا، یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین کی۔ بیت اللہ اس سے پہلے تعمیر ہوچکا تھا، بلکہ زمین پر اللہ کا سب سے پہلا گھر یہی تھا اور ظاہر ہے کہ ابراہیم ؑ سے بہت پہلے آدم ؑ اور دوسرے انبیاء ؑ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر آدم ؑ نے کی یا اس سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا تھا۔ ایک ٹیلے پر اس کی بنیادیں موجود تھیں جس پر ابراہیم اور اسماعیل ؑ نے کعبہ کی عمارت تعمیر فرمائی۔ صحیح بخاری میں ابن عباس ؓ کی لمبی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ابراہیم ؑ سے پہلے ایک اونچی جگہ تعمیر ہوا تھا۔ چناچہ اس حدیث میں زمزم کے نمودار ہونے کے بعد فرشتے کے ام اسماعیل ؑ کو تسلی دینے کا ذکر ہے : (فَقَالَ لَھَا الْمَلَکُ لاَ تَخَافُوا الضَّیْعَۃَ فَإِنَّ ھٰھُنَا بَیْتَ اللّٰہِ ، یَبْنِيْ ھٰذَا الْغُلَامُ وَ أَبُوْہُ وَ إِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ أَھْلَہُ وَ کَانَ الْبَیْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الْأَرْضِ کَالرَّابِیَۃِ تَأْتِیْہِ السُّیُوْلُ فَتَأْخُذُ عَنْ یَّمِیْنِہِ وَ عَنْ شِمَالِہِ فَکَانَتْ کَذٰلِکَ حَتّٰی مَرَّتْ بِھِمْ رُفْقَۃٌ مِنْ جُرْھُمَ) [ بخاري، الأنبیاء، باب (یزفون): 3364 ] ”تو فرشتے نے اس سے کہا، تم ضائع ہونے سے مت ڈرو، کیونکہ یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ لڑکا اور اس کا باپ اسے بنائے گا اور اللہ اس کے رہنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ بیت اللہ زمین سے ٹیلے کی طرح بلند تھا، سیلاب آتے اور اس کے دائیں بائیں طرف ہوجاتے۔ ام اسماعیل ایسے ہی رہیں، حتیٰ کہ جرہم قبیلے کے کچھ لوگ ان کے پاس سے گزرے۔“ اس حدیث کے آخر میں بیت اللہ کی تعمیر کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمزم کے نمودار ہونے کے وقت بھی ایک ٹیلے پر بیت اللہ موجود تھا مگر اس کی از سر نو تعمیر اسماعیل ؑ کے جوان ہونے پر ابراہیم اور اسماعیل ؑ نے کی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (127) کی تفسیر۔ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا۔۔ : ”الرُّكَّعِ“ ”رَاکِعٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”سُجَّدٌ“ ہے۔ ”السُّجُوْد“ ”سَاجِدٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”رَاقِدٌ“ اور ”جَالِسٌ“ کی جمع ”رُقُوْدٌ“ اور ”جُلُوْسٌ“ ہے۔ طواف کا معنی کسی چیز کے گرد پھرنا، چکر لگانا ہے۔ یعنی اس گھر کی بنیاد خالص توحید پر رکھو، ہر شخص یہاں آ کر صرف اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ مگر کفار مکہ نے اس کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھ دیے جن کا وہ طواف کرتے تھے، اب بھی کئی مسلمان کہلانے والے قبروں اور آستانوں کا طواف کرتے ہیں، حالانکہ طواف اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ایک گھر کا رکھا ہے، جسے کعبۃ اللہ کہتے ہیں، اس کے سوا کسی جگہ کا یا شخص کا طواف جائز نہیں۔ کعبہ کو ”بَيْتِيَ“ (میرا گھر) کہنے میں اس کی جو شان بیان ہوئی ہے اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ یعنی بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور میرے گھر کو طواف، قیام، سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔ بیت اللہ کو صاف ستھرا رکھنے سے مراد عام صفائی کے علاوہ شرک و بت پرستی سے پاک صاف رکھنا ہے۔ اس سے مشرکین کو عار دلانا مقصود ہے کہ یہ شرط تو ابراہیم ؑ کے وقت سے چلی آتی ہے کہ اس میں بت پرستی حرام ہے۔ نیز دیکھیے سورة بقرہ (125) کی تفسیر۔
Top