Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 7
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ؕ لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان رکھو اَنَّ فِيْكُمْ : کہ تمہارے درمیان رَسُوْلَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول لَوْ يُطِيْعُكُمْ : اگر وہ تمہارا کہا مانیں فِيْ كَثِيْرٍ : اکثر میں مِّنَ الْاَمْرِ : کاموں سے، میں لَعَنِتُّمْ : البتہ تم ایذا میں پڑو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن اللہ حَبَّبَ : محبت دی اِلَيْكُمُ : تمہیں الْاِيْمَانَ : ایمان کی وَزَيَّنَهٗ : اور اسے آراستہ کردیا فِيْ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں وَكَرَّهَ : اور ناپسند کردیا اِلَيْكُمُ : تمہارے سامنے الْكُفْرَ : کفر وَالْفُسُوْقَ : اور گناہ وَالْعِصْيَانَ ۭ : اور نافرمانی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ : وہ ہدایت پانیوالے
اور خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سی باتوں میں تمہارا کہنا مان لیا کرے تو تم لوگ خود ہی سخت مشکلات میں پڑجاؤ لیکن اللہ نے تم کو (اس سے بچا کر) ایمان کی محبت سے نواز دیا اور اس کو مزین (و محبوب) بنادیا تمہارے دلوں میں اور تمہارے اندر نفرت (و کراہیت) پیدا کردی کفر نافرمانی اور گناہ سے ایسے ہی لوگ راہ راست پر ہیں1
[ 15] سلامتی کی راہ رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع : سو اس سے بنیادی امر کو واضح فرما دیا گیا کہ صحت و سلامتی کی راہ صرف رسول کی اطاعت و اتباع میں ہے اور بس۔ پس رسول کی موجودگی میں کسی اور کے مشورے اور اس کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یقین جانو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے "۔ پس تم لوگوں کو ان کی موجودگی میں اپنی رائے اور اپنے مشوروں کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ تم رسول کو اپنے پیچھے چلانے کو کوشش کرنے لگو۔ بلکہ تم لوگوں کو ہمیشہ ان کے پیچھے چلنا چاہیے کیونکہ وہ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ سب حق اور سچ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی وحی کی روشنی میں ہوتا ہے، کہ وہ اپنی خواہش سے بولتے بھی نہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { وما ینطق عن الھوٰی ان ھو الا وحی یوحٰی } [ النجم : 4-5 پ 27] پس تم تم لوگ ان کی صدق دل سے تعظیم و تکریم کرو اور انہی کے حکم و ارشاد پرچلو کہ وہ اللہ کی مخلوق میں تم سب پر سب سے بڑھ کر مہربان بھی ہیں اور سب سے زیادہ تمہارے خیرخواہ بھی۔ پس خیر کامل خیر اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع ہی میں مضمر ہے۔ صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ۔ سو جب تمہارے اندر اللہ کا رسول موجود ہے تو تمہیں انہی کے قول و فعل کی اتباع اور پیروی کرنی چاہیے نہ کہ تم لوگ اس کوشش میں لگ جاؤ کہ وہ تمہاری آراء اور تمہارے مشوروں پر چلیں۔ کیونکہ وہ جو بھی قدم اٹھاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی میں اٹھاتے ہیں۔ اس لیے تمہاری دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود ان کی اتباع اور پیروی میں ہے نہ کہ اپنے جذبات اور خواہشات کی پیروی میں۔ اور یہ ارشاد اس وقت سے متعلق ہے جبکہ پیغمبر اپنی حیات طیبہ میں بذات خود موجود تھے۔ اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے خود فرمایا کہ میرے بعد اللہ کی کتاب اور میری سنت کی طرف رجوع کرنا۔ جب تک تم نے ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تم کبھی گمراہ نہیں ہوؤگے۔ لہٰذا تم ان دونوں کو اپنے دانتوں کی ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رکھنا۔ پس اہل بدعت جو اس آیت کریمہ سے اپنے شرکیہ عقائد کیلئے دلیل کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ باطل اور مردود ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ رسول کی موجودگی میں کسی اور کی رائے اور مشورے کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسول کی اتباع اور پیروی ہی پر صلاح و فلاح اور نجات کا مدار ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الی سواء السبیل۔ [ 16] رسول کی بات کو اپنی رائے کے تابع کرنا باعث ہلاکت۔ والعیاذ باللّٰہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر وہ بہت سی باتوں میں تمہاری بات ماننے لگیں تو تم لوگ سخت مشکل میں پڑجاؤ "۔ کیونکہ جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ جو کچھ ان کے علم میں ہے وہ تمہارے علم میں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے پاس حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ لہٰذا ان کا ہر قول و فعل حجت اور حق پر ہی ہوتا ہے۔ جبکہ تمہاری بات بالعموم خواہشات کی پیروی پر مبنی ہوتی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی بات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوسکتی۔ اور حق و ہدایت کو چھوڑ کر ھویٰ و ہوس کی پیروی میں بہرحال تباہی اور بربادی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ لہٰذا تم اس کی خواہش نہ کیا کرو کہ پیغمبر لازماً تمہاری ہر بات مانیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے جو کہ تم لوگوں کیلئے ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ لہٰذا اس نعمت کی قدر کرو۔ پس اگر کوئی رائے پیش کرنی ہوا کرے تو تم اس کو پورے ادب و احترام سے پیش کرکے فیصلہ رسول کی صواب دیدی ہی پر چھوڑ دیا کرو۔ تمہاری بہت سی آراء خام ہوتی ہیں اگر اللہ کا رسول ان کو مان لے تو تم لوگ خود بری مشکلات میں پھنس جاؤ گے اور اس کے نتیجے میں تم ہدایت کی روشنی سے نکل کر ہوی و ہوس کی ظلمتوں میں گر اور گھر جاؤ گے جو خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال، وسوء وانحراف، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب۔ [ 17] محبت ایمان سے سرفرازی ایک عظیم الشان انعام خداوندی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ایمان کی محبت سے نواز دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین فرما دیا اور کفر و نافرمانی اور معصیت سے تمہارے دلوں میں نفرت بٹھادی "۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان و یقین کی محبت اور دلوں میں اس کا جاگزیں ہوجانا اللہ پاک کی ایک خاص عنایت ہے کہ اس کے بعد ایسے خوش نصیب حضرات سے قول و فعل اور عمل و کردار کی دنیا میں وہی کچھ صادر ہوتا ہے جو حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور وہ انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں کھولتا ہے۔ اللّٰہم فحبب الینا الایمان وزینہٗ فی قلوبنا وکرہ الینا الکفر والفسوق والعصیان واجعلنا من الراشدین الھادین المھدیین بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین۔ سو یہ ایمان و یقین کی عظیم الشان برکات ہی ہیں جو انسان کو سعادت دارین سے سرفراز کرتی ہیں۔ سو ایمان کو حضرات صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں مزین و محبوب بنادینا اور کفر و فسوق و عصیان سے ان کو متنفر کردینا ایک عظیم الشان انعام و احسان تھا جس سے حضرت حق۔ جل مجدہ۔ نے ان کو بطور خاص نوازا تھا۔ کیونکہ دور جاہلیت میں تمام اقدار بالکل تلپٹ ہوگئے تھے۔ شیطان نے اپنے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ایمان کو لوگوں کی نگاہوں میں مکروہ اور مبغوض بنادیا تھا۔ اور اس کے برعکس کفر و فسوق کو ان کے یہاں محبوب و مطلوب بنادیا تھا۔ اور ایمان کو اس طرح تہ پردوں کے اندر محجوب و مستور کردیا گیا تھا کہ ان کو چاک کرکے ایمان کے حقیقی حسن و جمال کو لوگوں کے سامنے بےنقاب کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا تھا۔ اور اس کے برعکس کفر و فسوق کو ابلیس لعین نے مصنوعی طریقے سے اس طرح ملمع کردیا تھا اور اس کو لوگوں کے سامنے اس طرح پر فریب بنادیا تھا کہ اس کی اصل اور گھناؤنی شکل و صورت لوگوں کو دکھانا ایک قسم کا محال عادی بن گیا تھا۔ اللہ نے حضرت امام الانبیاء کی بعثت کے ذریعے ایمان کو اس کی اصل اور محبوب شکل میں لوگوں کو دکھا دیا اور کفر کے چہرے سے مصنوعی غازوں کو اتار کر اس کی اصل مکروہ اور گھناؤنی شکل سے لوگوں کو آشنا کردیا۔ فالحمدللّٰۃ جل وعلا، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، سبحانہ و تعالیٰ ۔ [ 18] راست رو لوگوں کی نشاندہی : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے اسلوب و انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ لوگ ہیں راہ راست والے "۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حق و ہدایت اور راہ صدق و صواب پر یہی حضرات ہیں جس کی یہ اور یہ صفات بیان ہوئیں۔ اور جن کا اولین اور کامل مصداق حضرات صحابہ کرام ہیں۔ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین۔ پھر ان کے بعد قیامت تک جو بھی کوئی ان کے نقش قدم پر چلے گا اور ان صفات و خصال کو اپنے اندر پیدا کرے گا وہی راہ حق و صواب پر ہوگا۔ اور اس حقیقت کی آنحضرت ﷺ نے طرح طرح سے تصریح و توضیح فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ حق و ہدایت کا طریقہ اور نجات کی راہ وہی ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ " ما انا علیہ واصحابی "۔ علیہم الرحمۃ والرضوان۔ پس جو کوئی حضرات صحابہ کرام سے بغض وعناد رکھے گا اور ان کے ایمان و یقین میں شک کرے گا اس کا اپنا ایمان و یقین بہرحال باقی نہیں رہ سکتا کہ وہ ایسی نصوص کا منکر قرار پائے گا جو کہ ظاہر ہے کھلا ہوا کفر ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسوء وانحراف، جل وعلا۔
Top