Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
کہا اے میرے رب ! یقینا میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا، بیشک وہی تو بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ۔۔ : گو موسیٰ ؑ نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا، مگر پیغمبروں کی شان بڑی ہے، ان کی شان کے لحاظ سے یہ بےاحتیاطی بھی مناسب نہ تھی، اس لیے موسیٰ ؑ نے اسے گناہ سمجھا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے طلب گار ہوئے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی، مگر موسیٰ ؑ اس کے بعد بھی نادم رہے اور قیامت کے دن جب لوگ ان کے پاس جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تو اپنی ندامت کا اظہار ان الفاظ میں کریں گے : (إِنِّيْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُوْمَرْ بِقَتْلِھَا) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : 194 ] ”میں نے ایک شخص قتل کردیا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔“ 3 قرآن کے بیان سے ظاہر ہے کہ موسیٰ ؑ سے یہ قتل نا دانستہ ہوا تھا، مگر بائبل موسیٰ ؑ کو قتل عمد کا مجرم ٹھہراتی ہے۔ چناچہ اس کی روایت ہے کہ ”مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر موسیٰ ؑ نے ادھر ادھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے، تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا۔“ (خروج : 2 : 12) یہ یہود کی ان تحریفات میں سے ہے جن کی اصلاح قرآن نے فرمائی، جو پہلی تمام کتابوں پر مہیمن ہے۔ 3 موسیٰ ؑ کی دعا ”اغْفِرْ لِيْ“ میں بخشش کی درخواست کے ساتھ پردہ ڈالنے کی درخواست کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ”مِغْفَرٌ“ اس خود کو کہتے ہیں جس کے ساتھ جنگ میں سر ڈھانپتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو معاف فرما دیا اور اس واقعہ پر پردہ بھی ڈال دیا اور اگلے دن پیش آنے والے واقعہ تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ قتل کس نے کیا ہے۔
Top