Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 26
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ۔۔ : کفار کے لشکروں کی کثرت تعداد، محاصرے کی سختی، سردی اور بھوک کی شدت اور بنو قریظہ کی عہد شکنی کی وجہ سے جب حالات نہایت سنگین ہوگئے تو اس وقت منافقوں کا اور شکوک و شبہات کے مریض مسلمانوں کا حال اوپر بیان ہوا کہ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے محض فریب تھے، اب مخلص مومنوں کا حال بیان ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سختیوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو آزمائش، تنگی اور تکلیف کے وہی مرحلے ہیں جن کے آنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پہلے ہی خبر دے رکھی ہے اور جن پر صبر کے بعد اس کی نصرت کا وعدہ ہے، جیسا کہ فرمایا : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : 214 ] ”یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو ! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔“ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ : یعنی اللہ اور اس کے رسول نے آزمائش کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور اس پر صبر کے بعد مسلمانوں کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست کا وعدہ بھی سچا تھا، جو سورة بقرہ (214) میں ”اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ“ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والی سورة قمر (45) میں ”سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ“ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا : یعنی وہ پہلے سے بھی زیادہ ایمان میں پختہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام ماننے والے بن گئے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ آدمی کے ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ امام بخاری ؓ نے صحیح بخاری میں آٹھ آیات اور متعدد احادیث سے یہ بات مدلل فرمائی ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو صریح آیات و احادیث کے باوجود مصر ہیں کہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے، نہ زیادتی۔
Top