Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ۔۔ : سورت کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے تقویٰ کا حکم دیا اور اس کا ہر حکم علی الاعلان سنا دینے اور کفار و منافقین کی پروا نہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس معاملے اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم دیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس پر توکل کی صورت میں اس کے کافی ہوجانے کی دلیل کے طور پر جنگ احزاب میں مسلمانوں کو اپنی نصرت کی نعمت یاد دلائی، یہ جنگ مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام جنگوں سے زیادہ خوف ناک تھی۔ اس میں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرماں بردار بندے صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ ایسے لشکروں کے ساتھ ان کی مدد کرتا ہے جو نظر بھی نہیں آتے۔ اس آیت میں ”يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا“ کے ساتھ مسلمانوں کو مخاطب فرمایا، معلوم ہوا کہ اس سے پہلے نبی ﷺ کو خطاب بھی تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کا ذکر اس لیے ہے کہ جب نبی اس حکم کی تعمیل کا پابند ہے تو امت تو بدرجۂ اولیٰ اس کی تعمیل کی پابند ہوگی۔ (بقاعی) 3 ہمارے استاذ محمد عبدہ ؓ لکھتے ہیں : ”یہ غزوۂ خندق کا ذکر ہے، جسے غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے، جو صحیح اور مشہور روایات کے مطابق شوال سن پانچ ہجری میں واقع ہوا۔ اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ سن چار (4) ہجری میں نبی ﷺ نے مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ کی سرزمین سے جلا وطن کردیا تھا۔ اس کے کچھ اشراف (سرکردہ لوگ) مکہ گئے اور سرداران قریش سے ملاقات کر کے انھیں نبی ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم مدینہ پر حملہ کرو تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور ہر طریقے سے تمہاری مدد کریں گے۔ جب قریش نے آمادگی کا اظہار کیا تو وہ نجد کے قبائل غطفان اور ہذیل وغیرہ کی طرف گئے اور انھیں بھی مدینہ پر حملے کے لیے اکسایا اور ہر ممکن طریقے سے امداد کرنے کا وعدہ کیا، یہاں تک کہ وہ بھی آمادہ ہوگئے۔ چناچہ سن پانچ (5) ہجری میں ایک طرف ابو سفیان کی سرکردگی میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر اور دوسری طرف غطفان، ہذیل اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر عیینہ بن حصن کی سرکردگی میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ گئے اور جنوب اور مشرق سے مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ شمال کی طرف سے بنو نضیر اور بنو قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینہ سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر اور وادی القریٰ میں آباد ہوگئے تھے۔ مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ نبی ﷺ نے حالات کا اندازہ کرکے سلمان فارسی ؓ کے مشورے سے ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ پیچھے یعنی مغرب کی سمت میں قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی آباد تھے، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، اس لیے مسلمان ان کی طرف سے بےفکر تھے، بلکہ انھوں نے اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھیج دیے تھے جو ان کی جانب تھیں۔ لیکن بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب ان کے پاس پہنچا اور انھیں حالات کی سازگاری کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے بد عہدی پر آمادہ کرلیا۔ اس طرح گویا مدینہ منورہ ہر طرف سے مشرکوں اور یہودیوں کے نرغہ میں آگیا۔ ان آیات میں انھی نازک حالات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان و انعام بیان کیا ہے۔“ (اشرف الحواشی) واضح رہے کہ قرآن مجید میں اس غزوہ کی تفصیل مؤرخین کے طریقے والی ترتیب پر نہیں، بلکہ نصیحت و عبرت کے اعتبار سے بیان ہوئی ہے، اس لیے واقع ہونے کے لحاظ سے کئی بعد والی باتیں پہلے بیان ہوئی ہیں اور کئی پہلے والی بعد میں۔ 3 غزوۂ احزاب میں کفار کی تعداد دس ہزار تھی، جب کہ مشہور قول کے مطابق مسلمان تین ہزار تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ نو سو تھے۔ ابن حزم نے ”جوامع السیرۃ“ میں فرمایا : ”یہی بات صحیح ہے بلاشک اور پہلی وہم ہے۔“ اس وقت مسلمانوں کی حالت کا نقشہ پیش کرنے کے لیے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خندق کی طرف نکلے تو مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے، ان کے پاس کوئی غلام نہ تھے، جو ان کے بجائے یہ کام سرانجام دیتے، تو جب آپ ﷺ نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا ؂ اَللّٰہُمَّ إِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْآخِرَہْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُہَاجِرَہْ ”اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔“ صحابہ نے آپ ﷺ کے جواب میں کہا ؂ نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا أَبَدَا ”ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد ﷺ کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔“ انس ؓ کہتے ہیں، آپ ﷺ ان کے جواب میں کہتے ؂ اَللّٰہُمَّ إِنَّہُ لَا خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُ الْآخِرَہْ فَبَارِکْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُہَاجِرَہْ ”اے اللہ ! خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔“ انس ؓ نے فرمایا : (یُؤْتَوْنَ بِمِلْءِ کَفَّيَّ مِنَ الشَّعِیْرِ فَیُصْنَعُ لَہُمْ بِإِہَالَۃٍ سَنِخَۃٍ تُوْضَعُ بَیْنَ یَدَيِ الْقَوْمِ ، وَالْقَوْمُ جِیَاعٌ، وَہِيَ بَشِعَۃٌ فِي الْحَلْقِ وَلَہَا رِیْحٌ مُنْتِنٌ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : 4099، 4100 ] ”صحابہ کرام کو دو ہتھیلیاں بھرنے کے برابر جو دیے جاتے، ان کے لیے اس سے بدلی ہوئی بو والی چربی کے ساتھ کھانا تیار کیا جاتا، جو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا، وہ بھوکے ہوتے، یہ کھانا ان کے گلوں میں اٹکتا جس میں ناگوار بو ہوتی۔“ جابر ؓ نے فرمایا : (إِنَّا یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ کُدْیَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، فَجَاءُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا ہٰذِہِ کُدْیَۃٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ ، فَقَالَ أَنَا نَازِلٌ ثُمَّ قَامَ وَ بَطْنُہُ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ ، وَ لَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ نَذُوْقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فِي الْکُدْیَۃِ ، فَعَادَ کَثِیْبًا أَہْیَلَ أَوْ أَہْیَمَ ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! اءْذَنْ لِيْ إِلَی الْبَیْتِ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِيْ رَأَیْتُ بالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ شَیْءًا، مَا کَانَ فِيْ ذٰلِکَ صَبْرٌ، فَعِنْدَکِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ عِنْدِيْ شَعِیْرٌ وَعَنَاقٌ، فَذَبَحْتُ الْعَنَاقَ وَطَحَنَتِ الشَّعِیْرَ ، حَتّٰی جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَۃِ ، ثُمَّ جِءْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَالْعَجِیْنُ قَدِ انْکَسَرَ ، وَالْبُرْمَۃُ بَیْنَ الْأَثَافِيِّ قَدْ کَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ فَقُلْتُ طُعَیِّمٌ لِيْ ، فَقُمْ أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَ رَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ ، قَالَ کَمْ ہُوَ ؟ فَذَکَرْتُ لَہُ ، قَالَ کَثِیْرٌ طَیِّبٌ قَالَ قُلْ لَّہَا لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَۃَ وَ لاَ الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّوْرِ حَتّٰی آتِيَ فَقَالَ قُوْمُوْا، فَقَامَ الْمُہَاجِرُوْنَ وَ الْأَنْصَارُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَی امْرَأَتِہِ قَالَ وَیْحَکِ ، جَاء النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بالْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَہُمْ ، قَالَتْ ہَلْ سَأَلَکَ ؟ قُلْتُ نَعَمْ ، فَقَالَ ادْخُلُوْا وَلاَ تَضَاغَطُوْا فَجَعَلَ یَکْسِرُ الْخُبْزَ وَ یَجْعَلُ عَلَیْہِ اللَّحْمَ ، وَیُخَمِّرُ الْبُرْمَۃَ وَالتَّنُّوْرَ إِذَا أَخَذَ مِنْہُ ، وَیُقَرِّبُ إِلٰی أَصْحَابِہِ ثُمَّ یَنْزِعُ ، فَلَمْ یَزَلْ یَکْسِرُ الْخُبْزَ وَ یَغْرِفُ حَتّٰی شَبِعُوْا وَ بَقِيَ بَقِیَّۃٌ قَالَ کُلِيْ ہٰذَا وَ أَہْدِيْ ، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْہُمْ مَجَاعَۃٌ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : 4101 ] ”خندق کے دن ہم کھدائی کر رہے تھے، تو ایک سخت چٹان پیش آگئی۔ صحابہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور بتایا کہ یہ ایک سخت چٹان پیش آگئی ہے۔ آپ نے فرمایا : ”میں اترتا ہوں۔“ چناچہ آپ ﷺ اٹھے، آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہمیں تین دن گزر چکے تھے کہ ہم نے کوئی چیز چکھی تک نہ تھی۔ نبی ﷺ نے کدال پکڑی، چٹان پر ماری تو وہ بھر بھرے تودے کی طرح ہوگئی۔ میں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔“ گھر جا کر میں نے بیوی سے کہا : ”میں نے نبی ﷺ کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا، تو تیرے پاس کچھ (کھانے کے لیے) ہے ؟“ اس نے کہا : ”میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کی پٹھوری ہے۔“ میں نے پٹھوری ذبح کی، اس نے جو پیسے اور ہم نے گوشت ہانڈی میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی ﷺ کے پاس آیا، اتنے میں آٹا پکنے کے لیے تیار ہوگیا تھا اور ہانڈی چولھے پر پکنے کے قریب تھی۔ میں نے جا کر کہا : ”تھوڑا سا کھانا ہے یا رسول اللہ ! آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی چلیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کتنا ہے ؟“ میں نے بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”بہت ہے اور عمدہ ہے، بیوی سے کہو کہ میرے آنے تک نہ ہانڈی اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔“ آپ نے صحابہ سے فرمایا : ”چلو۔“ مہاجرین و انصار اٹھ کھڑے ہوئے۔ جابر ؓ بیوی کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے : ”تجھ پر افسوس ہو ! نبی ﷺ مہاجرین و انصار اور جو بھی ان کے ساتھ ہیں انھیں لے کر آ رہے ہیں۔“ اس نے کہا : ”آپ ﷺ نے تم سے پوچھا تھا ؟“ میں نے کہا : ”ہاں !“ خیر آپ ﷺ نے فرمایا : ”اندر آجاؤ اور بھیڑ نہ کرو۔“ آپ روٹی توڑ توڑ کر اس پر گوشت ڈالتے رہے۔ ہانڈی اور تنور سے سالن اور روٹی نکالنے کے بعد اسے ڈھانک دیتے اور صحابہ کے سامنے رکھ دیتے، پھر دوبارہ اسی طرح کرتے، آپ روٹی اور سالن ڈالتے رہے، یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے اور کھانا بچ بھی گیا تو جابر کی بیوی سے فرمایا : ”کھاؤ اور ہدیہ بھی دو ، لوگوں کو بھوک آپہنچی ہے۔“ اس سے اگلی روایت میں جابر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اُدْعُ خَابِزَۃً فَلْتَخْبِزْ مَعَکِ) ”اپنے ساتھ روٹیاں پکانے والی ایک اور عورت بلا لو۔“ اور جابر ؓ نے فرمایا : ”وہ ایک ہزار تھے اور اللہ کی قسم ! وہ کھا کر کھانا چھوڑ گئے، ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی اور آٹا پکایا جا رہا تھا۔“ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : 4102 ] اس حدیث سے ابن حزم کی بات کی تائید ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر تین ہزار نہیں بلکہ ایک ہزار کے قریب تھا۔ کفار کا خندق کو عبور کرنے کے لیے اتنا زبردست دباؤ تھا کہ مسلسل دفاع کی وجہ سے بعض اوقات آپ کی نماز بھی رہ جاتی اور آپ بعد میں ادا کرتے۔ جابر ؓ فرماتے ہیں : ”عمر ؓ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے : ”اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! میں نماز کے قریب بھی نہیں جاسکا، حتیٰ کہ سورج ڈوبنے کے قریب پہنچ گیا۔“ نبی ﷺ نے فرمایا : (وَاللّٰہِ ! مَا صَلَّیْتُہَا) ”اللہ کی قسم ! میں نے بھی (عصر) نہیں پڑھی۔“ تو ہم نبی ﷺ کے ساتھ بطحان میں اترے، آپ نے اور ہم نے نماز کے لیے وضو کیا، تو آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر پڑھی، پھر مغرب پڑھی۔“ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : 4112 ] عبداللہ بن ابی اوفی ؓ فرماتے ہیں : ”رسول اللہ ﷺ نے احزاب (اتحادی لشکروں) کے خلاف بد دعا کی اور عرض کیا : (اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ! سَرِیْعَ الْحِسَابِ ! اِہْزِمِ الْأَحْزَابَ ، اَللّٰہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَ زَلْزِلْہُمْ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : 4115 ] ”اے اللہ ! اے کتاب نازل کرنے والے ! بہت جلد حساب لینے والے ! ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ ! انھیں شکست دے اور انھیں سخت ہلا کر رکھ دے۔“ اللہ تعالیٰ نے ”َّجُنُوْدًا“ کا لفظ ارشاد فرمایا، حالانکہ اس کا واحد ”جُنْدٌ“ (لشکر) بھی بڑی تعداد کے اظہار کے لیے کافی تھا، لیکن کیونکہ یہ مختلف گروہ تھے، قریش مکہ، بنو غطفان وغیرہ، اس لیے ”َّجُنُوْدًا“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا : الرحیق المختوم میں ہے : ”مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ ایک ماہ یا ایک ماہ کے قریب جاری رکھا تھا۔“ آزمائش کے یہ ایام بہت سخت تھے۔ اس دوران مسلمانوں کی حالت اس کے بعد والی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ کفار اس ارادے سے آئے تھے کہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر دم لیں گے اور جاتے ہی مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو باندھ کر ساتھ لے آئیں گے۔ دس ہزار کے مقابلے میں ایک ہزار کی حیثیت ہی کیا تھی، مگر اللہ کی توفیق سے خندق کی وجہ سے وہ نہ مدینہ میں داخل ہو سکے، نہ انھیں کوئی کامیابی حاصل ہوسکی۔ وہ تو ایک ہلّے میں فتح کا منصوبہ لے کر آئے تھے، لیکن یہاں انھیں محاصرے کے لیے ایک ماہ رکنا پڑا، جس کے لیے وہ تیار ہو کر نہیں آئے تھے، نہ ہی ان کے پاس اتنے دن رہنے کے لیے درکار خور و نوش کی اور دوسری اشیاء موجود تھیں، اس لیے وہ ہر لمحے زیادہ سے زیادہ قوت سے حملہ آور ہو رہے تھے۔ مسلمانوں نے اگرچہ اپنی حد تک مدافعت کی، مگر ان کی تعداد، ان کی تیاری اور تدابیر ہرگز ایسی نہ تھیں کہ ان لشکروں کا مقابلہ کرسکتیں، لیکن ان کی حالت زار دیکھ کر اور ان کی فریاد سن کر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور غیب سے ان کی مدد فرمائی۔ یہ مدد دو چیزوں پر مشتمل تھی، ایک سخت آندھی اور دوسرے ایسے لشکر جو مسلمانوں کی نگاہ سے اوجھل تھے۔ ”ریحاً“ سے مراد وہ نہایت سرد اور سخت آندھی ہے جس سے کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ان کے چولھوں کی آگ بجھ گئی، دیگیں الٹ گئیں، گھوڑے اور اونٹ رسیاں تڑوا کر بھاگ گئے اور ان پر ایسا شدید خوف طاری ہوا کہ وہ راتوں رات محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نُصِرْتُ بالصَّبَا وَأُہْلِکَتْ عَادٌ بالدَّبُوْرِ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : 4105 ] ”میری مدد صبا (مشرق سے آنے والی ہوا) کے ساتھ کی گئی اور عاد کو دبور (مغرب سے آنے والی ہوا) کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔“ وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا : ان لشکروں سے مراد فرشتوں کے لشکر ہیں، جنھوں نے کفار کے دلوں میں رعب ڈال کر ان کی ہمتیں توڑ دیں اور انھیں تتر بتر کردیا۔ بعض حضرات نے لکھ دیا کہ غزوۂ خندق میں فرشتوں کا اترنا صحیح احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ عائشہ ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : (لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ وَ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ ، أَتَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللّٰہِ ! مَا وَضَعْنَاہُ ، فَاخْرُجْ إِلَیْہِمْ قَالَ فَإِلٰی أَیْنَ ؟ قَالَ ہَاہُنَا، وَأَشَارَ إِلٰی بَنِيْ قُرَیْظَۃَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِلَیْہِمْ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي ﷺ من الأحزاب۔۔ : 4117 ] ”جب رسول اللہ ﷺ خندق سے واپس آئے، ہتھیار اتار دیے اور غسل کیا تو جبریل ؑ آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ”آپ نے ہتھیار اتار دیے، اللہ کی قسم ! ہم نے تو نہیں اتارے، سو آپ ان کی طرف نکلیے۔“ آپ نے فرمایا : ”کس طرف ؟“ انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ”اس طرف۔“ تو نبی ﷺ ان کی طرف نکل پڑے۔“ انس ؓ فرماتے ہیں : (کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَی الْغُبَارِ سَاطِعًا فِيْ زُقَاقِ بَنِيْ غَنْمٍ مَوْکِبِ جِبْرِیْلَ حِیْنَ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِلٰی بَنِيْ قُرَیْظَۃَ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي ﷺ من الأحزاب۔۔ : 4118 ]”گویا کہ میں وہ غبار چمکتا ہوا دیکھ رہا ہوں جو جبریل ؑ کی سواری سے بنو غنم کی گلی میں اٹھ رہا تھا، جب رسول اللہ ﷺ بنی قریظہ کی طرف گئے۔“ رسول اللہ ﷺ کے غزوات میں فرشتوں کے نزول اور اس کے جنود کی آمد کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے، جنگ حنین میں فرمایا : (ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا) [ التوبۃ : 26 ] ”پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے۔“ یہ ”جنود“ فرشتے تھے، اس کی وضاحت غزوۂ بدر کے بیان میں سورة انفال میں آئی ہے، فرمایا : (اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ) [ الأنفال : 12 ] ”جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔“ سورة توبہ میں غار کے اندر رسول اللہ ﷺ کی مدد نظر نہ آنے والے انھی لشکروں کے ساتھ کرنے کا ذکر فرمایا : (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) [ التوبۃ : 40 ] ”اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں میں بارہا فرشتوں کے نزول کا مشاہدہ ہوا ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں، شرط اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد اور اس پر استقامت ہے۔ مزید دیکھیے سورة انفال کی آیت (10) کی تفسیر۔ 3 یہ جنگ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی سب سے بڑی مہم تھی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ اس کے بعد اتنے لشکر کبھی جمع نہ کرسکے، نہ پھر انھیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت ہوسکی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی پیش گوئی پہلے ہی فرما دی۔ سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لشکر آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : (اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا، نَحْنُ نَسِیْرُ إِلَیْہِمْ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : 4110 ] ”اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔“ 3 رسول اللہ ﷺ کسی قسم کے فخر یا غرور کے بجائے ان لشکروں کی شکست کو ہمیشہ اپنے اکیلے رب کا کام قرار دیتے تھے۔ چناچہ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے : (لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ ، أَعَزَّ جُنْدَہُ ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ، فَلاَ شَيْءَ بَعْدَہُ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : 4114 ] ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے لشکر کو غلبہ عطا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلا تمام جماعتوں پر غالب آیا، سو اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔“ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا : یعنی تم دشمن کے مقابلے میں جو کچھ کر رہے تھے، خندق کھود رہے تھے، بھوک پیاس اور خوف کی سختیاں برداشت کر رہے تھے اور استقامت اختیار کیے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ سب کچھ خوب دیکھ رہا تھا، سو اس نے تمہاری حالت دیکھ کر غیب سے تمہاری مدد فرمائی۔
Top