Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ایمان والو
اذْكُرُوْا
: یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ جَآءَتْكُمْ
: جب تم پر (چڑھ) آئے
جُنُوْدٌ
: لشکر (جمع)
فَاَرْسَلْنَا
: ہم نے بھیجی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
رِيْحًا
: آندھی
وَّجُنُوْدًا
: اور لشکر
لَّمْ تَرَوْهَا ۭ
: تم نے انہیں نہ دیکھا
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِمَا
: اسے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
مومنو ! خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس نے) تم پر (اس وقت کی) جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل) کئے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان کو دیکھ رہا ہے
ذکر قصہ غزوۂ احزاب وغزوۂ بنی قریظہ قال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم۔۔۔ الی۔۔۔ وکان اللہ علی کل شیء قدیرا۔ (ربط) اس قصہ کے ذکر کرنے سے منافقین اور مخالفین کی ایذا رسانیوں اور دلخراش زبان درازیوں کا جواب دینا مقصود ہے اور یہ بتلانا مقصود ہے کہ آپ ﷺ کس درجہ اللہ کے محبوب ہیں اور منصور اور موید من اللہ ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے رسول کی اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں کس طرح مدد فرماتے ہیں اس غزوہ میں جو واقعات پیش آئے اس سے آپ کی نبوت و رسالت بھی ثابت ہوئی اور منافقین اور مخلصین کا امتیاز ظاہر ہوا منافقین جو کاذبین کا گروہ تھا ان کا کذب اور نفاق ظاہر ہوا اور آپ ﷺ کے محبین (ف 1) صادقین کی صداقت اور استقامت ظاہرہوئی اور خبیث اور طیب کی تمیز قرآن کریم کے اعظم مقاصد میں سے ہے۔ نیز اس غزوہ میں جو واقعات پیش آئے ان سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ جو خدا سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا دو رکوع تک یہی مضمون چلا گیا ہے جو قصہ ان آیات میں مذکور ہے وہ اللہ کی عجیب و غریب نعمتوں اور کرامتوں پر مشتمل ہے ان دونوں غزو وں میں اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر آپ ﷺ کو کامیابی عطا فرمائی جس سے آپ کی اور مسلمانوں کی پریشانی دور فرمائی اور احزاب کثیرہ جو مدینہ پر چڑھ کر آئے تھے خدا تعالیٰ نے اپنے قہر سے بغیر قتال کے سب کو بھگا دیا اور گذشتہ سورت کے اخیر میں کافروں کا قول نقل کیا تھا ویقولون متی ھذا الفتح ان کنتم صادقین اس کا جواب ہوگیا اور اس فتح میں جن معجزات بدیعہ کا ظہور ہوا وہ کتب حدیث میں مفصل مذکور ہیں۔ اس غزوہ کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ ہجرت کے چوتھے یا پانچویں سال جب یہود بنی نضیر مدینہ سے نکالے گئے (جن کا ذکر سورة حشر میں آئے گا) تو یہ لوگ خیبر میں چلے گئے اور خیبر اس وقت یہود سے بھرا ہوا تھا اور وہاں ان کے بڑے قلعے اور باغات اور عمارتیں تھیں جس کو آنحضرت ﷺ نے سنہ سات ہجری میں فتح کیا ان لوگوں نے قبائل عرب میں پھر کر مشرکین کو مدینہ پر چڑھائی کے لئے آمادہ کیا تاکہ جب سب متحدہ قوت اور طاقت سے مدینہ پر حملہ کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے اور مسلمانوں کا یکلخت خاتمہ ہوجائے گا اور یہود مدینہ نے بھی باوجود آپ ﷺ سے معاہدہ کے یہود بنی نضیر کا ساتھ دیا ان سب یہودیوں نے قریش کو اور دیگر قبائل عرب کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ پر اکسایا اور کہا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں یہاں تک کہ اس مدعی نبوت کا قضیہ پاک ہوجائے چناچہ نبی نضیر اور دیگر سرداران یہود کے بہکانے سے قریش مکہ اور دیگر قبائل عرب بسر داری ابوسفیان بن حرب تقریبا دس بارہ ہزار کی تعداد میں لشکر جرار لے کر اچانک مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور چاروں طرف سے مدینہ کا محاصرہ کرلیا مسلمانوں نے جب اس کثیر تعداد فوج کو دیکھا تو پریشان ہوئے یہود نبی قریظہ جن کا ایک قلعہ مدینہ منورہ کے شرقی جانب میں تھا وہ پہلے سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے بنو نضیر کی ترغیب وترہیب سے بنی قریظہ نے اپنے سابق معاہدہ کو بالائے طاق رکھ دیا اور حملہ آوروں کی مدد کے لئے کھڑے منافقین اس حالت کو دیکھ کر طرح طرح کی بولیاں بولنے لگے اور کہنے لگے کہ نبی ﷺ جو یہ کہتے تھے کہ اللہ نے ان سے فتح اور نصرت کا وعدہ کیا تھا اور ہم کو کہتے تھے کہ فتح کا انتظار کرو کما قال تعالیٰ وانتظر انہم منتظرون وہ جھوٹا ہوتا نظر آتا ہے اب مشرکین عرب مدینہ کو فتح کر کے ہم کو پامال کریں گے اور جو مخلص ایماندار تھے اور ایمان میں صادق اور سچے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ نے جو اپنے رسول سے وعدہ نصرت کیا ہے وہ حق اور صدق ہے یہ ظاہری حالت من جانب اللہ آزمائش ہے تاکہ کھرا اور کھوٹا معلوم ہوجائے۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئے بالآخر سلمان فارسی ؓ کے مشورہ سے آپ ﷺ نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا اس لئے یہ غزوہ، غزوۂ خندق کہلایا سلمان فارسی ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب ہم فارس میں محصور ہوجایا کرتے تھے تو اپنے گردا گرد خندق کھود لیا کرتے تھے تاکہ دشمن کے حملہ سے محفوظ ہوجائیں رسول اللہ ﷺ نے اس رائے کو پسند فرمایا۔ اور تمام مسلمانوں نے اور خود رسول اللہ ﷺ نے ان کے شریک حال ہو کر خندق کھودی تقریبا ایک مہینہ تک مدینہ کا محاصرہ رہا دشمنوں کا لشکر دونوں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں اور درمیان میں خندقیں حائل تھیں درمیان میں خندق حائل ہونے کی وجہ سے کھل کر حملہ نہ ہوسکا اور باضابطہ قتل و قتال کی نوبت نہیں آئی دور سے تیر اندازی ہوتی رہتی تھی اور کبھی قریب سے بھی دو دو چار چار آدمیوں کا مقابلہ ہوجاتا تھا مسلمان سخت ابتلا میں تھے کہ دشمن ہر طرف سے چھایا ہوا تھا بیس پچیس روز تک یہی کیفیت رہی اور بنی قریظہ جن کا آنحضرت ﷺ سے عہدوپیمان تھا وہ آپ ﷺ سے کنارہ کش ہو کر اپنے قلعہ میں محفوظ ہوگئے اور قلعہ کا دروازہ بند کرلیا۔ بالآخر حسب وعدہ الٰہی غیبی مدد پہنچی اور خدا نے رات کے وقت ایسی شدت کی آندھی بھیجی کہ کافروں کے تمام ڈیرے اکھڑگئے اور ریت اور سنگریزے اڑ اڑ کر کافروں کے منہ پر لگنے لگے اور ان کے تمام چولہے بجھ گئے سواروں اور گھوڑوں کے بھی پیر اکھڑ گئے اور لشکر میں بھگڈر پڑگئی اور ہر طرف سے یہ آواز آنے لگی اٹھو اور چلو سردی اور ٹھنڈی اور تیز ہوا اور رات کی تاریکی کی وجہ سے ٹھہرنا مشکل ہوگیا اور بدحواس ہو کر کہنے لگے کہ واللہ محمد ﷺ نے تم پر جادو کردیا ہے بالآخر ابو سفیان جس کے ہاتھ میں لشکر کی کمان تھی اس نے کوچ کا طبل بجا دیا جب صبح ہوئی تو وہی مدینہ جو شروع رات میں دشمنوں کے نرغہ میں تھا دشمنوں سے خالی ہوگیا اور جو بڑے دم خم اور دعوؤں سے آئے تھے سب بےنیل مرام واپس گئے اور ذلیل و خوار ہو کر کوچ کر گئے اور اس غیبی مدد سے مسلمانوں کی پریشانی دور ہوئی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ تم جو کہتے تھے متی ھذا الفتح ان کنتم صادقین دیکھو کہ اللہ تعالیٰ صادقین کو اس طرح فتح دیتا ہے اور کاذبین کو ذلیل و خوار کر کے اس طرح بھگاتا ہے اس لئے تذکیر نعمت سے اس قصہ کا آغاز فرماتے ہیں اے ایمان والو ! تم اس نازک وقت میں اپنے اوپر اللہ کا انعام یاد کرو کہ اس نے بغیر قتال ہی کے تم کو کافروں پر غلبہ دیا اور کافروں کو باوجود پورے سازوسامان کے ذلت و خواری کے ساتھ میدان جنگ سے بھگایا اللہ تعالیٰ کا ایسا انعام ایسے ہی لوگوں پر ہوتا ہے جو اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوں اور اپنے وعدوں پر سچے ہوں اور منافقین کے کہنے پر نہ چلتے ہوں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہوں اور اسی کے حکم پر چلتے ہوں جس وقت کہ دشمنوں کے لشکر اور ان کی فوجیں تمہارے سر پر آپہنچیں قریش مکہ اور غطفان اور کنانہ اور بنو قریظہ اور بنو نضیر یہ تمام جماعتیں متفقہ طور پر تم پر آچڑھیں تو ہم نے دشمنان اسلام پر ایک تیز ہوا بھیجی جس نے ان کے تمام خیمے اکھاڑ دئیے اور ان کے گھوڑے چھوٹ گئے اور آگیں بجھ گئیں اور مٹی ان کے منہ میں آکر لگنے لگی اور کافروں کی فوجیں گھبرا کر بھاگ کھڑی ہوئیں اور وہ آندھی (ف 1) باوجود اس زور اور شدت باوجود اس زور اور شدت کے ان سے متجاوز نہیں ہوئی صرف کفار کے لشکر تک محدود رہی جیسا کہ فارسلنا علیہم ریحا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آندھی صر کافروں پر بھیجی گئی تھی اور مسلمانوں پر نہیں بھیجی گئی تھی اور اہل اسلام کی مدد کے لئے ہم نے فرشتوں کے لشکر بھیجے جن کو تم نے نہیں دیکھا فرشتوں کے لشکروں نے اگرچہ جنگ بدر کی طرح کافروں سے قتال نہیں کیا مگر ان کے دل میں رعب ڈالتے تھے اور لشکر کے اطراف و جوانب میں بآواز بلند اللہ اکبر کہتے تھے دیکھو روح المعانی ص 139 ج 21۔ 1 کما فی روایۃ حذیفۃ عند ابن کثیر واذا الریح فی عسکرہم ما تجاوز عسکرہم شبرا الخ تفسیر ابن کثیر ص 472 ج 3۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کے لشکر میں یکلخت سراسیمگی پھیل گئی اور سراسیمگی اور پریشانی سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر قبیلہ کا سردار اپنے لوگوں سے کہنے لگا چلو چلو بھاگو بھاگو اور بعض بدحواس ہو کر یہ کہنے لگے کہ واللہ محمد ﷺ نے تم پر جادو کردیا ہے اب تم یہاں نہیں ٹھہر سکتے لہٰذا کوچ کر جاؤ اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا تھا کہ آندھی سے دشمنوں کو ہلاک کیا اور اپنے دوستوں اور وفاداروں یعنی صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو محفوظ رکھا لہٰذا اے مسلمانو ! تم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تازہ نعمت کا شکر کرو اور یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا کہ جب وہ احزاب یعنی کافروں کی مختلف جماعتیں ہر طرف سے تم پر چڑھ کر آئیں تمہارے اوپر کی جانب سے بھی اور تمہاری نیچی جانب سے بھی یعنی کوئی قبیلہ مدینہ منورہ کی اونچی جانب سے آیا اور کوئی نیچی جانب سے اور دونوں جانب سے تم کو محاصرہ میں لے لیا ہے اور جب کہ ان کی کثرت اور ہیبت دیکھ کر دہشت کے مارے نظریں خیرہ ہوگئیں اور خوف کے مارے دل حلقوم تک آلگے اور نکلنے کے قریب ہوگئے اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے اہل ایمان کا گمان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ لشکر اسلام کو ضرور فتح دے گا اور منافقوں کا گمان یہ تھا کہ اب اسلام اور مسلمان ختم ہوئے ایسے ہی شدید وقت میں اہل ایمان کا امتحان کیا گیا تاکہ ثابت قدم اور متزلزل اور صادق اور منافق ایک دوسرے سے ممتاز ہوجائے سو الحمد للہ مسلمان امتحان میں پورے اترے اور منافقین کا نفاق ظاہر ہوگیا اور اس موقع پر اہل ایمان خوف اور دہشت کے ساتھ خوب ہلائے گئے اور جھڑ جھڑائے گئے اور اس شدت اور دہشت کو دیکھ کر منافقین اور جن کے دلوں میں ضعف ایمان کی بیماری تھی یہ کہہ رہے تھے کہ نہیں وعدہ کیا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا مگر محض دھوکہ اور فریب کے طور پر یعنی یہ کہنا کہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب اس واقعہ میں منافقین میں سے ایک گروہ نے دوسرے حاضرین معرکہ سے کہا اے اہل یثرب یعنی اے اہل مدینہ یہ تمہارے رہنے اور ٹھہرنے کی جگہ نہیں پس تم اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ جاؤ یا اپنے سابق آبائی دین کی طرف لوٹ جاؤ یہ قول اوس بن قبطی کا تھا جس میں کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا تھے اور ان میں کا ایک فریق اللہ کے نبی سے گھر جانے کی اجازت مانگتا تھا یہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہمارے گھر بےپردہ اور غیر محفوظ ہیں حالانکہ ان کے گھر ان کے خیال میں بھی خالی اور غیر محفوظ نہ تھے ان کا ارادہ اور نیت محض لڑائی سے بھاگنے کی تھی اور ان کا اندرونی حال تو یہ ہے کہ اگر مدینہ میں لشکر کفار دفعتہ تمام اطراف اور جوانب سے داخل ہوجائے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں محفوظ ہوں پھر ان سے فتنہ فساد یعنی مسلمانوں سے لڑنے کی درخواست کی جائے تو فورا اس فتنہ اور فساد میں شرکت کو منظور کریں گے اور نہیں دیر کریں گے مگر بہت تھوڑی یعنی یہ سنتے ہی مسلمانوں سے مقابلہ اور مقاتلہ کے لئے تیار ہوجائیں گے اور دیر نہ کریں گے مگر صرف اتنی جتنی کہ سوال واجواب اور ہتھیار لگانے اور گھر سے نکلنے میں دیر لگتی ہے معلوم ہوا کہ ان کا دل اسلام اور مسلمانوں کی عداوت سے بھرا ہوا ہے یہ لوگ مسلمانوں کی فتح ونصرت ہرگز نہیں چاہتے اور البتہ تحقیق ان لوگوں نے اس واقعہ سے قبل جنگ احد میں اللہ سے پختہ اور مضبوط عہد کیا تھا کہ آئندہ ہم کافروں سے جہاد میں پشت نہیں پھیریں گے بتلائیں کہ وہ عہد کہاں گیا اور اللہ کے عہد ضرور باز پرس ہوگی اور اگر یہ کہیں کہ ہم نے موت کے ڈر سے ایسا کیا تو کہہ دیجئے کہ اگر تم موت یا قتل سے بھاگنا چاہتے ہو تو یہ بھاگنا تم کو ہرگز نفع نہیں دے گا موت کا وقت مقرر ہے پھر اگر بھاگ کر موت یا قتل سے فی الحال بچ بھی گئے تو نہ فائدہ پہنچائے جاؤ گے مگر تھوڑا زمانہ یعنی بقیہ عمر مقدر اس واسطے کہ آخر فنا ہے اور اگر ان کا گمان یہ ہے کہ ان کے قلعے اور محلات ان کے محافظ اور نگہبان ہیں تو اے نبی آپ ﷺ ان سے کہہ دیجئے کہ بتلاؤ کہ کون ہے جو تم کو اللہ کی گرفت سے بچائے اگر اللہ تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے یعنی وہ قادر مختار اگر تمہارے قتل کا یا شکست اور خواری کا ارادہ فرمادے تو کون ہے جو اس کو روک دے اور سن لیں کہ نہیں پائیں گے یہ لوگ اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست جو ان کو نفع پہنچائے اور نہ کوئی یارومدد گار جو ان سے ضرر کو دفع کرسکے اثنا کلام میں مسئلہ قضا وقدر کو ذکر فرما دیا اب آئندہ آیات میں پھر منافقین کے وساوس اور بزدلی کو ذکر کر کے ان کی تشنیع فرماتے ہیں تحقیق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو دوسروں کو لڑائی میں جانے سے روکتے ہیں جو اپنے نسبی یا وطنی بھائیوں سے یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف نہ جاؤ بلکہ ہماری طرف آجاؤ سلامت رہو گے مسلمانوں کی طرف جا کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور ان کی بزدلی کا حال یہ ہے کہ نہیں آتے یہ منافق لڑائی میں مگر بہت تھوڑا کبھی کبھی دکھانے اور سنانے کے لئے آجاتے ہیں درآنحالیکہ یہ منافقین تمہاری جانی اور مالی مدد کرنے میں بڑے بخیل ہیں ان کے دل حرص اور طمع سے بھرے ہوئے ہیں کسی وقت اگر لڑائی میں شرکت کرتے ہیں تو اس طمع کی بنا پر شرکت کرتے ہیں کہ مال غنیمت کا ہم کو استحقاق ہوجائے پھر جب کبھی خوف کا موقع پیش آئے تو آپ ان کو اس حالت میں دیکھیں گے کہ یہ لوگ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں ان کے گڑھوں میں حیرت اور دہشت سے ایسی چکراتی ہیں جیسے وہ شخص کہ جس پر موت کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی ہو تو اس کے ہوش و حواس جاتے رہتے ہیں اور اس کی نگاہ اوپر کو چڑھ جاتی ہے پھر وہ پلک نہیں مار سکتا اسی طرح لڑائی کے وقت نامردوں کا حال ہوتا ہے کہ خوف کی وجہ سے ان کی آنکھیں اوپر کو چڑھ جاتی ہیں پھر جب وہ خوف چلا جاتا ہے اور ڈر کا وقت نکل جاتا ہے اور امن ہوجاتا ہے تو تیز زبانوں سے تم پر زبان درازی کرتے ہیں درآنحالیکہ مال غنیمت کے بارے میں سخت حریص ہوتے ہیں یعنی فتح کے بعد اپنی بہادری جتلاتے ہیں اور چڑھ چڑھ کے باتیں کرتے ہیں کہ ہماری پشت پناہی سے تم کو فتح حاصل ہوئی لہٰذا مال غنیمت سے ہم کو بھی حصہ دو ان لوگوں کو اللہ کی باتوں پر یقین نہیں پس اللہ نے ان کے اعمال کو ملیامیٹ کردیا اور ان کا جہاد اور ان کا کوئی عمل اللہ کے یہاں مقبول نہیں اور یہ بات اللہ پر بہت آسان ہے جس کو چاہے توفیق دے اور جس کو چاہے محروم کرے ان آیات میں منافقین کی تیز زبانی کو بیان کیا اب آئندہ آیات میں مزید ان کی بزدلی اور نامردی کو بیان کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ ان کی بزدلی کا حال یہ ہے کہ احزاب (کفار کی فوجیں) ناکام اور واپس جا چکی ہیں مگر یہ منافقین خوف اور دہشت کے مارے ابھی یہی گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ احزاب یعنی کافروں کی جماعتیں اور ان کی فوجیں واپس نہیں گئیں اور اگر بالفرض کافروں کی یہ فوجیں دوبارہ چڑھ آئیں تو یہ منافقین خوف کے مارے یہ تمنا کریں گے کہ کاش ہم مدینہ میں نہ رہیں بلکہ جنگل میں جا کر بدویوں کی طرح صحرا نشین ہوجائیں اور وہاں بیٹھے بیٹھے تمہاری خبریں پوچھتے رہیں اور بغیر اس کے کہ لڑائی اپنی آنکھوں سے دیکھیں دور بیٹھے بیٹھے ہی آنے جانے والوں سے مسلمانوں کا اور لڑائی کا حال پوچھ لیا کریں کہ کیسا ہے اور وہاں کیا ماجرا گذرا ہے اور اگر اتفاق سے یہ لوگ دیہات میں نہ جائیں بلکہ تمہارے ہی درمیان یعنی مدینہ ہی میں رہیں اور دشمنوں سے مقابلہ ہو تو نہ قتال کریں مگر بہت تھوڑا سا یعنی برائے نام جس سے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بھی شرکت کی۔ اب ان آیات میں منافقین کی بزدلی کو بیان کیا آگے بتلاتے ہیں کہ ہمت اور شجاعت رسول خدا کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے چناچہ فرماتے ہیں البتہ تحقیق تمہارے لئے رسول خدا کے اندر عمدہ نمونہ ہے کہ دیکھو رسول خدا ان سختیوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہے اہل ایمان کو چاہئے کہ آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلیں پس رسول خدا ﷺ ہی کی چال چلنی بہتر ہے اس شخص کے لئے کہ جو اللہ کے ثواب کی امید رکھتا ہو اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور اللہ کو بہت یاد رکھتا ہو یعنی اپنے خدا سے غافل نہ ہو تو ایسے شخص کو چاہئے کہ ہر معاملہ میں حضور پر نور ﷺ کی ذات با برکات کی پیروی کرے اور شدائد اور مصائب میں صبر اور استقامت سے کام لے تو انشاء اللہ ضرور اس کو کامیابی ہوگی آخر دیکھو کہ آنحضرت ﷺ نے پیغام الٰہی کے پہنچانے میں مشرکین کی ایذاؤں پر کتنا صبر کیا اور پھر ہجرت کی خویش و اقارب اور وطن سب کو چھوڑا اور پھر دشمنان خدا سے جہاد کیا اور طرح طرح کی ایذائیں برداشت کیں۔ اب آگے ان منافقین کے مقابلہ میں مومنین مخلصین کے صدق اور اخلاص کا ذکر ہے آنحضرت ﷺ نے اہل اسلام کو یہ خبر دی تھی کہ احزاب یعنی کفار کے لشکر تم پر چڑھ کر آئیں گے جس سے تم پر کام سخت ہوجائے گا لیکن بالآخر تم ہی ان پر فتح پاؤ گے چناچہ فرماتے ہیں اور جب مومنین مخلصین نے احزاب یعنی کفار کے لشکروں کو آتے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ وہی شے ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور ان احزاب کے دیکھنے سے ان کے ایمان اور تسلیم میں اور ترقی ہوگئی یعنی ان کا یقین بڑھ گیا اور فرمانبرداری اور جاں نثاری اور زیادہ ہوگئی اور کہنے لگے کہ یہ تو وہی بات ہے جس کی ہم کو اللہ اور اس کے رسول نے پہلے ہی سے خبر دے دی تھی آج ہم نے اس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا یہ حال دیکھ کر ان کا ایمان استدلال ایمان شہودی اور عیانی بن گیا یہ تو عام مومنین مخلصین کا حال تھا اب آئندہ آیت میں بعض خاص الخاص مومنین صادقین کا حال ذکر کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں منجملہ ان مومنین مخلصین سے کچھ ایسے مردان خدا بھی ہیں کہ جنہوں نے سچ کر دکھایا اس بات کو جس کا انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا جیسے انس بن النضر ؓ اور ان کے رفقا جو اتفاق سے غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے تو ان کو اس کا بہت افسوس ہوا کہ میں پہلے غزوہ میں لڑائی سے غائب رہا اور کہنے لگے کہ اگر خدا تعالیٰ نے پھر کافروں سے جہاد کا موقعہ دیا تو خدا دیکھ لے گا کہ میں اس کی راہ میں کیا کرتا ہوں پھر ان معاندین کی دو قسمیں ہوگئیں بعضے تو وہ ہیں کہ جو اپنی نذر کو پوری کرچکے اور خدا کی راہ میں ایسی جانبازی اور سرفروشی دکھلا کر شہید ہوگئے جیسے انس بن النضر ؓ اور مصعب بن عمیر ؓ اور حمزہ ؓ یہ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی وفا کی اور اپنی نذر سے فارغ ہوئے اور بعضے ان میں سے دو ہیں کہ جو وقت کے منتظر ہیں جیسے عثمان ؓ اور طلحہ ؓ کہ ابھی شہید نہیں ہوئے مگر شہادت کے مشتاق ہیں اور انہوں نے ذرہ برابر اپنا عہد بدلا نہیں اپنے عہد پر قائم ہیں اپنی بات سے پھرے نہیں ان لوگوں نے اپنے عہد کو نہ توڑا اور نہ بدلا اہل صدق اور اہل وفا کا یہی حال ہوتا ہے بخلاف منافقین کے کہ وہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے جیسا کہ منافقین کے بیان میں گذر چکا ہے ولقد کانوا عاھدوا اللہ من قبل لا یولون الادبار۔ اب آئندہ آیت میں اس غزوہ کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ یہ غزوہ منجانب اللہ ابتلا اور امتحان تھا جس سے مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ محبین صادقین کو ان کے صدق اور اخلاص کی جزا دے اور منافقوں اور جھوٹوں کو عذاب دے اگر چاہے کہ وہ نفاق پر مریں یا ان کو توبہ کی توفیق دے اگر چاہے کہ ان کی مغفرت کرے یہ سب لوگ اللہ کی زیر مشیت ہیں بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے کہ جس کو چاہتا ہے تو بہ کی توفیق عطا کر کے اس کی مغفرت کردیتا ہے۔ اب آگے اس غزوہ کے انجام اور آخرت حالت کو بیان کرتے ہیں اور اس لڑائی کا انجام یہ ہوا کہ بیس پچیس روز بعد ان تمام کافر جماعتوں کو جو مدینہ پر چڑھ کر آئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے غیظ سمیت بےنیل مرام واپس کردیا یعنی جس طرح غصہ میں بھرے ہوئے آئے تھے اسی طرح غصہ میں بھرے ہوئے ناکام واپس ہو اور دل کی بھڑاس نہ نکال سکے اور کسی بھلائی کو نہیں پہنچ سکے اور اللہ تعالیٰ نے بادصبا عطا کی اور بلا جنگ وجدال کے دشمنوں کو ان کے بلاد سے نکال باہر کیا اور اس آیت وکفی اللہ ال مومنین القتال میں اشارہ اس طرف ہے کہ اب مسلمانوں اور قریش کے درمیان لڑائی ختم ہوئی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ احزاب کی واپسی کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا الان نغزوہم ولا یغزوننا (بخاری) اب ہم مشرکین عرب پر چڑھ کر جائیں گے اور ان پر حملہ آور ہوں گے اب آئندہ ان میں اتنی طاقت اور ہمت نہیں رہی کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ ان پر چڑھ کر گئے اور مکہ فتح کیا اور اس طرح کافروں کی جماعتوں کو ہٹا دینے اور بھگا دینے کو عجیب نہ سمجھو کیونکہ اللہ تعالیٰ زور آور زبردست ہے اسے یہ کام کوئی دشوار نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حول اور قوت سے ان کو اس طرح غائب دخاسر پھیر دیا۔ ذکر غزوہ بنی قریظہ یہاں تک احزاب مشرکین کا حال بیان ہوا اب آئندہ آیات میں دشمنان اسلام کے دوسرے گروہ یعنی یہود بنی قریظہ کا حال بیان کرتے ہیں جس کا مختصر حال یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ مدینہ کے قریب آباد تھے اور ان کا ایک مضبوط قلعہ تھا اور پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کئے ہوئے تھے جنگ احزاب کے موقعہ پر جب مشرکین عرب کے مختلف قبائل مدینہ پر چڑھ کر آئے تو یہود بنی قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی کی اور احزاب کی معاونت کی اور ان کی ساتھ مل گئے جب اللہ تعالیٰ نے بادصبا اور فرشتوں سے اہل اسلام کی مدد کی اور احزاب کفار سراسیمہ ہو کر بھاگ گئے تو یہود بنی قریظہ جو احزاب کی مدد کر رہے تھے وہ اپنے مضبوط قلعوں میں جا گھسے ان کے بارے میں اللہ کا حکم نازل ہوا کہ احزاب کے چلے جانے کے بعد ان کا محاصرہ کیا جائے آنحضرت ﷺ جنگ احزاب سے فارغ ہو کر غسل وغیرہ میں مشغول تھے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) تشریف لے آئے اور ان کے چہرہ پر غبار کا اثر تھا فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دئیے اور فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے اللہ کا حکم ہے کہ آپ ﷺ بنی قریظہ پر حملہ کریں اور مجھ کو یہ حکم ہے کہ میں جا کر ان کو متزلزل کروں اور ان کے دلوں میں رعب ڈالوں حضور پر نور ﷺ کی طرف سے فورا منادی ہوگئی اسلامی لشکر نے پہنچ کر ان بدعہدوں کے قلعہ کا محاصرہ کیا چوبیس یا پچیس دن تک محاصرہ جاری رہا جب محاصرہ کی تاب نہ لاسکے تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیام بھیجنے شروع کئے آخر میں بات یہ ٹھہری کہ سعد بن معاذ ؓ (جو جاہلیت میں ان کے حلیف تھے) ہمارے حق میں جو فیصلہ کریں وہ ہمیں منظور ہے سعد بن معاذ ؓ (جو جاہلیت میں ان کے حلیف تھے) ہمارے حق میں جو فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مرد قتل کئے جائیں اور زن و فرزند کنیز و غلام بنائے جائیں اور ان کے اموال اور جائیداد کے مسلمان مالک بنا دئیے جائیں اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ میں اللہ کے حق میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں یہاں تک احزاب کفار کا حال اور مآل بیان کیا جو بالذات مدینہ پر حملہ آور ہوئے اس کے بعد بنی قریظہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ جو حملہ آوروں کے معین اور مددگار بنے چناچہ فرماتے ہیں کہ جن اہل کتاب نے احزاب کی مدد کی اور ان کی پشت پناہ بنے اور مسلمانوں سے جو عہد کیا تھا اس کو توڑا پچیس دن کے محاصرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتارا اور ان کے دلوں میں پیغمبر خدا اور لشکر اسلام کا خوف ڈال دیا باجودیکہ ان کے لڑنے والے جوان آٹھ سو اور نو سو کے درمیان ہر طرح سے مسلح تھے مگر سعد بن معاذ ؓ کے فیصلہ کے بعد جب ان کی مشکیں باندھی گئیں اور ان کی گردن زدنی کے کے لئے کھائیاں اور گڑھے کھودے گئے تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب بھر دیا کہ سر کشی کی مجال نہ ہوئی حالانکہ یہ مسلح جماعت ایک بڑا لشکر تھا لیکن رعب کی وجہ سے اپنے آپ کو اہل ایمان کے سپرد کرتے تھے پس اے مسلمانو ! اللہ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ تم ان میں سے ایک فریق کو قتل کرتے تھے اور ایک فریق کو قید کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ان غداروں کی زمین کا اور ان کے مالوں کا وارث بنا دیا جس طرح چاہو ان میں تصرف کرو چناچہ ان میں کے سات سو جوان قتل کئے گئے اور بچے اور عورتیں قید کر کے غلام بنا لئے گئے اور ان کے کھیت اور باغات اور زمینیں اور قلعے سب مسلمانوں پر تقسیم کر دئیے گئے جس سے مسلمان آسودہ حال ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں تم کو ایسی زمین کا وارث بنا رکھا ہے جس کو تمہارے قدموں نے ابھی نہیں روندا ہے اس سے آئندہ فتوحات کی طرف اشارہ ہے کہ سر زمین قریظہ کے بعد اور زمینیں بھی فتح ہوں گی بعض سلف کے نزدیک اس دوسری زمین سے خیبر کی زمین مراد ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فارس اور روم کی زمین مراد ہے اور امام ابن جریر (رح) وسلم فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صدق اور اخلاص کے صلہ میں روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ دوسری جگہ صراحۃً اس کا ذکر ہے وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض مفصل تفسیر سورة نور میں گذرچ کی ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کرسکتا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ وہ اپنے بےسروسامان محبین باوفا کو اپنے دشمنوں کی زمین کا وارث بنا دے۔
Top