Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور اس نے اس (توحید کی بات) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنادیا، تاکہ وہ رجوع کریں۔
1 وجعلھا کلمۃ :’ جعلھا“ میں ضمیر ”ھا ‘ سے مراد کلمہ توحی ”لا الہ الا اللہ“ ہے، کیونکہ ”اثنی برآء مما تعبدون“ کا خلاصہ ”لا الہ“ ہے اور ”الا الذی فطرنی“ کا خلاصہ“ الا اللہ“ ہے۔ (ہ) باقیہ فی عقبہ :”جعلھا“ میں ضمیر فاعل سے مراد ابراہیم ؑ بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے اس کلمہ کو پانی اولاد میں باقی رہنے والا بنادیا۔ دو طرح سے، ایک تو انہوں نے اپنی اولاد کو اور ان کی اولاد نے پانی اولاد کو اس کی وصیت کی، جیسا کہ فرمایا :(ووضی بھا ابرھم بنیہ و یعقوب ، یبنی ان اللہ اصطفی لکم الذین فلا ت موتن الا وانثم مسلمون) (البقرۃ : 122)”اور اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو ! بیشک اللہ نے تمہارے لئے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہرگز فوت نہ ہونا مگر اس کی اولاد میں سے ایک امت مسلم یعنی اللہ کی فرماں بردار رہے، وہ بت پرستی سے بچے رہیں، ایمان اور عمل صالح پر قائم رہیں اور ان میں انبیاء و رسل اور اس کلمے کی دعوت دینے والے موجود رہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذا بتلی ابراھم ربہ بکلمت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لا ینال عھدی الظلمین) (البقرہ :123)”اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پورا کردیا۔ فرمایا بیشک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ کہا اور میری اولاد میں سے بھی ؟ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔“ اور ابراہیم ؑ نے دعا کی۔ (واجنبنی و بنی ان نعبد الاصنام) (ابراہیم : 35)”اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔“ اور دعا کی : (رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی) (ابراہیم : 30) ”اے میرے رب ! مجھ نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔“ اور ابراہیم اور اسماعیل ؑ نے دعا کی :(ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک) (البقرۃ : 128)”اے ہمارے رب ! اور ہمیں اپنے لئے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لئے فرماں بردار بنا۔“ اور یہ دعا بھی کی :(ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویرکیھم) (البقرۃ : 129)”اے ہمارے رب ! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے۔“ اور اگر ”جعلھا“ میں ضمیر فاعل سے مراد اللہ تعالیٰ ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمے کو ابراہیم ؑ کی اولاد میں باقی رہنے والا بنادیا اور ان میں ہمیشہ اس کلمے پر ایمان رکھنے والے اور اس کی دعوت دینے والے موجود رہے اور رہیں گے۔ چناچہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کی دعا قبول فرما کر مکہ میں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(انا دعوۃ ابی ابراہیم) (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ح : 1536)”میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔“ اسی طرح ان کی اولاد میں اسحاق، یعقوب اور بہت سے انبیاء (علیہم السلام) مبعوث فرمائے، فرمایا :(3 وھبنا لہ اسحاق و یعقوب و جعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب) (العنکبو :28)”اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کئے اور اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔“ (3) لعلھم یرجعون : یعنی اگر ان میں سے کچھ لوگ گمراہ ہو کر شرک کرنے لگیں تو توحید پرستوں کی دعوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ آئیں۔ اس میں مکہ والوں کو تنبیہ ہے کہ نبی کریم ﷺ وہی کلمہ لے کر آئے ہیں جو ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں باقی چھوڑا تھا، اس لئے تم ان کی دعوت قبول کرلو اور شرک سے باز آجاؤ۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ابراہیم ؑ کی ساری اولاد ایمان والی نہیں ہوئی بلکہ ان میں نیک و بد ہر قسم کے لوگ رہے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (124) ، صافات (113) نسائ، (54، 55) اور سورة حدید (26) اگلی آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔
Top