Madarik-ut-Tanzil - Nooh : 27
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہو یہ بات اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ : کہ ہوجائیں گے لوگ اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک ہی امت لَّجَعَلْنَا : البتہ ہم کردیں لِمَنْ : واسطے اس کے جو يَّكْفُرُ : کفر کرتا ہے بِالرَّحْمٰنِ : رحمن کے ساتھ لِبُيُوْتِهِمْ : ان کے گھروں کے لیے سُقُفًا : چھتیں مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی سے وَّمَعَارِجَ : اور سیڑھیاں عَلَيْهَا : ان پر يَظْهَرُوْنَ : وہ چڑھتے ہوں
اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی امت ہوجائیں گے تو یقینا ہم ان لوگوں کے لیے جو رحمان کے ساتھ کفر کرتے ہیں، ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں بھی، جن پر وہ چڑھتے ہیں۔
(1) ولولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ…:”سفاً“”سقف“ کی جمع ہے، چھتیں۔ ”معارج“ (سیڑھیاں)”معرج“ یا ”معراج“ کی جمع ہے، جیسے ”مقاتح“ اور مفاتیح“ ”مفتاح“ کی جمع ہیں۔ ”سرراً“ ”سریر“ کی جمع ہے، چار پائیاں ، تخت۔ ”ازخرفاً“ کا معنی سونا ہے، جیسا کہ کفار نے نبی ﷺ سے کہا تھا :(اویکون لک بیت من اخرف) (بنی اسرائیل : 93)”یا تیرے لئے سونے ایک گھر ہو۔“ اس کا معنی زینت و آرائش بھی ہے، جیسا کہ فرمایا :(حتی اذا اخذت الارض زخرفھا وازینت) (یونس : 23)”یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کرلی اور خوب مزین ہوگئی۔“”زخرفاً“ منصوب ہونے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ اصل میں ”سقفاً من فضۃ ومن زخرف“ ہے، حرف جار حذف ہونے کی وجہ سے منصبو ہوگیا ، یعنی ”ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سونے کی۔“ دوسری وجہ یہ کہ یہ ”لجعلنا“ کے مفعول ”سقفاً“ پر عطف ہے، یعنی ”لجعلنا لبیوتھم سقفا من فضۃ و لجعلنا لھم زخرفاً“ کہ ”ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور ہم ان کے لئے سونا مہیا کردیتے۔“ ”اوان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا“ میں ”ان“ نافیہ ہے اور ”لما“ بمعنی ’ الا ‘ ہے جیسے فرمایا :(ان کل نفس لما علیھا حافظ) (الطارق : و)”نہیں کوئی جان مگر اس کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔“ (2) آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ”ورحمت ربک خیر مما یجمعون“ (اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں) میں آخرت کی عظمت و شان اور دنیا کی حقارت بیان فرمائی تو ساتھ ہی بیان فرمایا کہ اس سے نزدیک دنیا و بالکل ہی حقیر اور بےقدر و قیمت ہے، اس کے ہاں کوئی قیمت ہے تو صرف آخرت کی، اس لئے اس نے آخرت کی نعمتیں صرف مسلمانوں کے لئے خاص کر رکھی ہیں، کفار کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں اس نے مومن و کافر سب کو شریک رکھا ہے اور دونوں کو ان نعمتوں میں شریک رکھنے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر ہمیں یہ بات ناپسند نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی امت یعنی سبھی کافر ہوجائیں گے تو ہم دنیا کی زیب و زینت کی تمام اشیاء کفار کو دے دیتے، لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کے دلوں میں دنیوی زیب و زینت کی شدید رغبت اور محت موجود ہے، اگر ہم نے یہ سبھی کچھ کفار کو دے دیا تو دنیا کی رغبت کے نتیجے میں سبھی لوگ کافر ہوجائیں گے۔ (جب کہ یہ بات ہماری رحمت کو منظور نہیں) اس لئے ہم نے کافر و مومن دونوں میں غنی بھی رکھے ہیں، فقر بھی اور دنیا کی زندگی کے ساز و سامان میں دونوں کو شریک رکھا ہے۔ آیت کے آخری جملوں (وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا و الاخرۃ عند ربک للمتقین) (اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کے سامان کے سوا کچھ نہیں اور آخرت تیرے رب کے ہاں متقی لوگوں کے لئے ہے) میں بیان فرمایا کہ آخرت صرف ایمان والوں کے لئے ہے۔ یہی مضمون سورة اعراف (32) میں بیان ہوا ہے۔ سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (لو کانت الدنیا تعدل عند اللہ جناح یعوضۃ ماسقی کافرا منھا شربۃ مائ) (ترمذی، الزھد، باب ماجدء فی ھوان الدنیا علی اللہ مرد جل : 2320)”اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر ہوتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ پینے کو نہ دیتا۔“
Top