Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے اور قریب نہیں کہ وہ بات واضح کرے۔
(1) ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین :”مھن یمھن مھانہ“ (ؐ) کے معنی ہیں ”خضر و ضعف“”مھین“ بروزن ”فعیل ‘ حقیر، ضعیف۔ ”ام“ سے پہلے ایک جملہ ہمزہ استفہام پر مشتمل ہوتا ہے، جو یہاں اس مفہوم کا ہوگا کہ ”کیا یہ شخص یعنی موسیٰ ؑ بہتر ہے یا میں بہتر ہوں…؟“”ام“”بل“ کے معنی میں بھی آتا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوگا۔”بلکہ میں بہتر ہوں…۔“ (2) فرعون موسیٰ ؑ کی تحقیر کے لئے زیادہ سے زیادہ جو الفاظ استعمال کرسکتا تھا اس نے وہ کئے۔ ان میں سے لفظ ”ھذا“ بھی حقارت کے اظہار کے لئے ہے، یعنی ”اس شخص سے جو حقیر ہے۔“ وہ موسیٰ ؑ کو اسلئے حقیر کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس اس جیسی نہ دولت تھی نہ قوت و سلطنت ، بلکہ وہ اس کی غلام قوم کے ایک فرد تھے اور غلام توحقیر ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ عجیب حقیر شخص تھا جس سے فرعون بھی شدید خوف زدہ تھا، ہر عذاب پر اس کے سامنے دعا کے لئے منت و سماجت کرتا تھا، اپنی ساری شان و شوکت، قوت و اقتدار اور افواج قاہرہ کے باوجود اسے اپنے دربار میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا تھا، جب کہ اس کے پاس فوج تھی نہ سالحہ، صرف ایک عصا ہاتھ میں لئے جب چاہتا اس کے سر پر پہنچ جاتا اور یہ عجیب حقیر شخص تھا جس کے متعلق وہ اپنے سرداروں سے کہتا تھا :”مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔“ (دیکھیے مومن ، 26) حالانکہ کسی نے اسے قتل کرنے سے نہیں روکا تھا اور فرعون میں یہ جرأت نہیں تھی کہ انھیں ہاتھ بھی لگا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا مال یا اقتدار حقارت یا عظمت کا پیمانہ ہے ہی نہیں اور نہ ہی موسیٰ ؑ حقیر تھے، بلکہ وہ ظالم خود ہی حقیر و ذلیل تھا جو دنیا کے عارضی متاع پر مغرور ہو کر حق سے انکار پر اڑا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے کفار بھی دنیا کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو نبوت عطا ہونا قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ (3) ولا یکاد یبین : بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا اشارہ اس لکنت کی طرف تھا جو موسیٰ ؑ کی زبان میں پائی جاتی تھی، مگر یہ بات درست نہیں۔ موسیٰ ؑ کی دعا کے بعد وہ لکنت دور ہوگئی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ ! تمہاری دعا قبول کرلی گی ہے۔ (دیکھیے طہ : 36) قرآن مجید میں فرعون کیساتھ موسیٰ ؑ کے کئی مناظرے مذکور ہیں، جن میں انہوں نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنا مدعا بیان فرمایا اور ہر موقع پر فرعون کو لاجواب کیا۔ اگر چہ انہوں نے اپنی مدد کے لئے ہارون ؑ کو زیادہ فصیح اللسان ہونے کی وجہ سے مانگ کرلیا تھا، مگر کہیں بھی انھیں اظہار مقصد کے لئے ہارون ؑ کی ضرورت نہیں پڑی۔ رہاف رعون کا ان کے متعلق کہنا کہ ”قریب نہیں کہ وہ اپنی بات واضح کرسکے“ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کفار و مشرکین کی سمجھ میں پیغمبروں کی بات آتی ہی نہیں، جیسا کہ شعیب ؑ جیسے زبردست خطیب کو ان کی قوم نے کہا :(یشعیب ما نفقہ کثیراً مما تقول وانا لنئک فینا ضعیفاً (ھود : 91)”اے شعیب ! ہم اس میں سے بہت سے باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور بیشک ہم تو تجھے اپنے دریمان بہت کمزور دیکھتے ہیں۔“ فرعون موسیٰ ؑ پر وہی دو طعن کر رہا تھا جو اس سے پہلے شعیب ؑ پر ان کی قوم نے کئے تھے کہ بات سمجھ میں نہ آنا اور ان کی نگاہ میں ان کا حقیر اور ضعیف ہونا۔ ہمارے نبی ﷺ کی بات بھی مشرکین کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، نہ ہی وہ اپنے جیسے دلوت مندوں کی موجودگی میں آپ ﷺ کو نبی ماننے کے لئے تیار تھے، فرمایا :(وعجبوا ان جآء ھم منذر منھم وقال الکفرون ھذا سحر کذاب اجعل الا لھۃ الھا واحداً ان ھذا لشیء عجاب وانطلق الملامنھم ان امشوا واصبروا علی الھتکم ان ھذا لشیء یراد ما سمعنا مھدا فی الملکۃ عذاب عندھم خرآئن رحمۃ ربک العزیز الوہاب) (ص : 3 تا 9)”اور انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے معبود بنا ڈالا ؟ بلا شبہ یہ یقینا بہت عجیب بات ہے اور ان کے سرکردہ لوگ چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، یقینا یہ تو ایسی بات ہے جس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ کیا ہمارے درمیان میں سے اسی پر نصیحت نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ میری نصیحت سے شک میں ہیں، بلکہ انہوں نے ابھی تک میرا عذاب نہیں چکھا۔ کیا انھی کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں، جو سب پر غالب ہے، بہت عطا کرنے والا ہے۔“
Top