Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
(1) لقد ؓ عن المومنین…: اس سے پہلے ”ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ“ میں حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کو اللہ تعالیٰ سے بیعت قرار دینے کے بعد اس سے پیچھے رہنے والوں کا حال بیان فرمایا، اب دوبارہ بیعت کرنے والوں پر اپنی رضا کا اور دوسری بشارتوں کا ذکر فرمایا۔ (2) اس درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ کرام کو بیعت کے وقت ہی کائنات کی سب سے بڑی نعمت مل گئی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی، کیونکہ اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں، جیسا کہ فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : 82)”اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنوید سب سے بڑی ہے۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لقد ؓ المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ)”بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔“ اس رضا ہی کی وجہ سے اس کا نام بیعت رضوان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا داخلہ لازم و ملزوم ہیں۔ (دیکھیے مجادلہ : 22۔ توبہ : 72) جب ان صحابہ کرام ؓ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے شہادت دے دی کہ وہ ان پر راضی ہوگیا تو کس قدر بدنصیب ہے وہ گروہ جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان سے بغض و عداوت رکھے اور کہے کہ وہ بعد میں نعوذ باللہ مرتد ہوگئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو آئندہ کا علم نہیں تھا اور وہ رضا کیسی ہے جس کے باوجود وہ بندے مرتد ہوجائیں جن پر وہ راضی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ مزید حاصل ہونے والی نعمتوں کا بیان آگے آرہا ہے۔ قرآن مجید کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی بیعت رضوان میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ عمرہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے سنا سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں :”حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا (انتم خیر اھل الارض)”تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہ۔“ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔“ (بخاری، المغازی، باب غزوۃ الحدیبۃ :3153 ام مبشر ؓ بیان کرتیہیں کہ انہوں نے حفصہ ؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا :(لا یدخل النار، ان شاء اللہ من اصحاب الشجرۃ اخد الذین یایعوا تحتھا) (مسلم، فضائل الصحابۃ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ…؟ 2396”ان شاء اللہ اس درختوں والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہوگا جنہوں نحے اس کے نیچے بیعت کی۔ ذذ جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حاطب ؓ کا ایک غلام حاطب ؓ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا :”یا رسول اللہ ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہوگا۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(کذبت لایدخلھا فانہ شھد بدرا و الحدیبیۃ) (مسلم ، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ …: 2395)”ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے، ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور عمر ؓ درخت کے نیچے ﷺ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔“ (4) طارق بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں حج کرنے کے لئے گیا تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے پوچھا :”کیا یہ نماز کی جگہ ہے ؟“ انہوں نے کہا :”یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی۔“ میں سعید ابن مسیب کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو سعید نے فرمایا :”میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، تو جب ہم اگلے سال آئے تو ہمیں وہ درخت بھلا دیا گیا، مہ اسے پاہی نہ سکے۔“ سعید نے فرمایا :”اصحاب محمد ﷺ کو تو وہ معلوم نہ ہوا اور تم نے اسے جان لیا، پھر تم زیادہ جاننے والے ہوئے ؟“ (بخاری ، المغازی، باب غزوۃ الحدییۃ :3163) عبدا للہ بن عمر ؓ نے فرمایا (رجعنا من العام المقبل فما اجتمع منا اثنان علی الشجرۃ التی یایعنا تحتھا، کانت رحمۃ من اللہ) (بخاری، الجھاد و السری، باب البیعۃ فی الحرب ان لایفروا :2958)”ہم آئندہ سال دوبارہ آئے تو ہم میں سے دو شخص بھی اس درخت پر متفق نہ ہو سکے جس کے نیچے ہم نے بیعت کی تھی، یہ اللہ کی طرف سے رحمت تھی۔“ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا :”اس میں حکمت یہ تھی کہ اس درخت کے نیچے خیر کے اس کام کی وجہ سے لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں، کیونکہ اگر اس کی پہچان باقی رہتی تو بعض جاہل لوگوں سے اس کی تعظیم کا خطرہ تھا، حتیٰ کہ ممکن تھا کہ وہ یہ عقیدہ رکھ لیتے کہ اس درخت میں نفع اور نقصان پہنچانے کی طاقت ہے، جیسا کہ اب اس سے بھی معمولی چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔“ ابن حجرنے اپنے زمانے کی بات کی ہے، ہمارے دور میں تو آثار پرستی کا معاملہ اس سے بھی کہیں دور پہنچ چکا ہے۔ آج کل جو لوگ پیروں فقیروں کے آستانوں کے درختوں، پتھروں اور قبروں کو پوجنے سے نہیں چوکتے اگر انھیں وہ درخت مل جاتا تو وہ کیا کچھ نہ کرتے۔ (5) فعلم ما فی قلوبھم فانزل ال کسی نۃ علیھم : یعنی اللہ تعالیٰ نے اس صدق، اخلاص اور سمع و طاعت کو جان لیا جس کی وجہ سے انہوں نے دشمن کے اعتبار سے تعداد میں بہت کم ہونے اور تقریباً نہتے ہونے کے باوجود آخر دم تک میدان میں جمے رہنے کی بیعت کی اور اس سخت اضطراب اور بےقراری کو بھی جو ان کے دل میں صلح کی ناگوار شرطوں پر پیدا ہوئی ، جس کا باعث کوئی نافرمانی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول ﷺ اور اسلام کی محبت اور ان کی عزت اور سربلندی کا جذبہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و اخلاص کی بدولت ان کے دل پر سکینت نازل فرمائی، جس کی بدولت انہیں رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم پر دلی اطمینان اور سکون حاصل ہوگیا اور وہ جس طرح موت تک لڑنے کے لئے تیار تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی قبول کردہ شرطوں پر صلح کے لئے بھی تیار ہوگئے۔ (6) یہ آیت بیعت رضوان والے صحابہ کے مخلص مومن ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے دلوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے۔ نہایت بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے مخلص ایمان والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ منافق تھے۔ (نعوذ باللہ من ذلک) (7) واثا بھم فتحاً قریباً : عام مفسرین اس ”فتح قریب“ سے مراد فتح خیبر لیتے ہیں اور یہ کچھ بعید بھی نہیں، مگر اہل علم کا ایک قول اس کے بارے میں یہ بھی ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ بیعت رضوان کے بعد یہی وہ بنیادی اور اہم فتح تھی جس سے مسلمانوں کے لئے دوسری تمام فتوحات کے راستے کھل گئے اور اس کے کھچ ہی عرصہ بعد خیبر فتح ہوا، پھر مکہ مکرمہ کی فتح ہوئی، حتیٰ کہ پورا جزیرہ عرب رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اسلام کے زیر نگیں آگیا۔ اس سورت کی ابتدا میں اس صلح ہی کو فتح مبین فرمایا ہے۔
Top