Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 14
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قَالَتِ : کہتے ہیں الْاَعْرَابُ : دیہاتی اٰمَنَّا ۭ : ہم ایمان لائے قُلْ : فرمادیں لَّمْ تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہیں لائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قُوْلُوْٓا : تم کہو اَسْلَمْنَا : ہم اسلام لائے ہیں وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ : داخل ہوا ایمان فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَاِنْ : اور اگر تُطِيْعُوا : تم اطاعت کروگے اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : اللہ اور اس کے رسول کی لَا يَلِتْكُمْ : تمہیں کمی نہ کرے گا مِّنْ اَعْمَالِكُمْ : تمہارے اعمال سے شَيْئًا ۭ : کچھ بھی اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بیشک اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(1) قالت الاعراب :”الاعراب“ کی تشریح کیلئے دیکھیں سورة توبہ (97) کی تفسیر۔ یہاں ”الاعراب“ پر الف لام جنس کا نہیں عہد کا ہے اور اس سے مراد تمام اعراب نہیں، کیونکہ ان میں کئی مخلص مومن بھی تھے۔ (دیکھیے توبہ : 99) بلکہ مراد وہ بعض اعراب ہیں جو مدینہ کے گرد رہتے تھے اور اسلام کی قوت کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے تھے، دل میں تکذیب بھی نہیں تھی کہ انہیں منافق کہا جاسکے، مگر ابھی تک کچھ تردد باقی تھا اور ایمان و یقین پوری طرح دل میں داخل نہیں ہوا تھا، اس لئے یہ عمرہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں گئے۔ ان کا ذکر اس سے پہلے سورة فتح کی آیت (11):(سیقول لک المخلقون من الاعراب) میں بھی گزرا ہے۔ (2) امنا : سورت کی ابتدا میں ان اعراب کا ذکر ہے کہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی تک رسول اللہ ﷺ کے آداب اور اسلام کے دوسرے احکام سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان آداب و احکام کی تلقین فرمائی اور جاہلیت کے فخر و غرور اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں سے منع فرمایا۔ اس سلسلے میں واضح فرمایا کہ آدمی کو دوسروں پر فخر کا حق ہی نہیں، کیونکہ وہ عزت جو دوسروں پر برتری دلاتی ہے وہ صرف تقویٰ سے حاصل ہتوی ہے، جس کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال صرف علیم وخبیر جانتا ہے۔ یہاں سے ان اعربا کے کچھ دعوے ذکر فرما کر، جن سے ان کے فخر کا اظہار ہوتا تھا۔ ان کی تردید فرمائی۔ سب سے پہلے ان کے اس دعوے کا ذکر فرما کر کہ ہم ایمان لے ائٓے ہیں، اس کی نفی فرمائی۔ (3) قل لم یومنوا ولکن قولوا اسلمنا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عام طور پر ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں دل کا یقین اور ظاہری فرماں برداری دونوں شامل ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبدالقیس کو ایمان کی تشریح کرتے ہؤے بتایا کہ ایمان کلمہ شہادت ، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ”ان الذین عند اللہ الاسلام“ کہہ کر اپنی جناب میں معتبر دین اسلام کو قرار دیا اور ظاہر ہے وہاں وہی دین معتبر ہے جو دل کے یقین سے ہو صرف ظاہری امال تو وہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات اسلام سے مراد ظاہری احکام کی پابندی اور ایم ان سے مراد قلبی یقین ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے۔ یہاں بیھ ایسا ہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایمان سے مراد دلی یقین اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اسلام سے مراد دل سے مان لینا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا (فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام) (الانعام : 125)”تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدیات دے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔“ جس طرح بعض اوقات ایمان سے مراد صرف زبانی کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یایھا الذین امنوا امنوا باللہ و رسولہ) (النسائ : 136)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے) ایمان لے آؤ (یعنی دل سے مان لو۔)“ یہاں فرمایا : ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ! (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے) ایمان لے آؤ (یعنی دل سے مان لو۔)“ یہاں فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہ وہ کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ یعنی ہم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور اس کے ظاہری احکام پر عمل شروع کردیا ہے۔ یہاں الفاظ پر غور فرمائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”قل لم یومنوا ولکن اسلمتم“ ”ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ تم مسلم ہوگئے ہو۔“ بلکہ فرمایا :(لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا)”تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے مومن ہونے کی نفی کے بعد ان کے مسلم ہونے کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا کہ تم مسلم ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلم وہی تسلیم ہوسکتا ہے جو مومن بھی ہو۔ اس کے ہاں اگر کسی کے دل میں یقین نہیں تو ظاہری اعماال کا بھی کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں، ظاہری طور پر سالامی احکام کی پابندی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کا دعویٰ کرنے کی اجازت ہے۔ (4) ولما یدخل الایمان فی قلوبکم :”اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا،“ اس جملے سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اگرچہ پکے مومن نہیں تھے مگر منافق بھی تھے، کیونکہ وہ دل سے رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا نہیں جانتے تھے۔ ان کے شک کی وجہ سے ان کے ایمان کی نفی کی گئی اور اگلی آیت میں مومن ان لوگوں کو قرار دیا جو ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہیں نہیں کیا۔ ”لما“ کے لفظ سے ظاہر ہے ہ اگرچہ وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، مگر آئندہ ان کے دلوں کے اندر ایمان داخل ہونے کی امید تھی۔ (5) وان تطیعوا اللہ و رسولہ لایلتکم…:”لایلث“ اصل میں ”لایلث“ تھا،”ان تطیعوا“ شرط کا جواب ہونے کی وجہ سے تاء پر جزم آگئی، تویاء اور تاء دو ساکن جمع ہونے کی وجہ سے یاء گرگئی۔ ”لاٹ یلیت“ کسی کے حق میں کمی کرنا۔ یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے ان دونوں کی اطاعت کی شرط اول ان پر سچے دل سے ایمان و یقین رکھنا ہے۔ اس میں انہیں اخلاص و یقین کی ترغیب دلائی ہے، یعنی اسلام کے احکام پر ثواب کی امید بھی اس وقت ہوسکتی ہے جب ظاہر و باطن سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد اعمال کا پورا ثواب دینا اور اس میں کمی نہ کرنا صرف اللہ کا کام ہے، رسول کا نہیں۔ اس لئے ”لایلث“ واح کا صیغہ استعمال فرمایا۔ (6) ان اللہ غفور رحیم : یعنی اطاعت کے بعد پہلی کوتاہیوں کو اللہ معاف کر دے گا، کیونکہ وہ گناہوں پر بےحد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔
Top