بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے !
(1) والنجم اذا ھویٰ :”النجم“ ستارہ۔”الف لام“ تعریف کیلئے ہو تو مراد ”ثریا“ ہے کیونکہ عرب کے ہاں ”النجم“ بول کر ”ثریا“ مراد لینا معروف ہے اور اگر ”الف لام“ جنس کے لئے ہو تو ستاروں کی جنس مراد ہے، خواہ کوئی ہوں اور یہاں جنس مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔“”ھوی یھوی ھویاً“ (ض) کا معنی جکرنا اور غروب ہونا بھی آتا ہے اور چڑھنا اور طلوع ہونا بھی اور ”ھوی یھوی ھوی“ (س) کا معنی ہے محبت کرنا۔ (2) قرآن مجید کی قسمیں اپنے جواب قسم کی شہادت کے طور پر لائی جاتی ہیں اورق سم اور جواب قسم میں معنوی طور پر مناسب ہوتی ہے۔ یہاں ”والنجم اذا ھویٰ“ میں مذکور قسم بعد کی آیت ”ماضل صاحبکم وما غوی“ کے دعویٰ کی شہادت کے طور پر لائی گی ہے اور دونوں میں معنوی مناسبت ہے۔ مفسرین نے اس مناسبت کی تقریر کئی طرح سے فرمائی ہے، ان میں سب سے واضح دو تقریریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ”النجم“ سے مراد عام ستارے ہیں، یعنی جس طرح تمام ستارے اپنے اپنے مدار میں چلتے ہیں، اپنی مقررہ جگہ سے طلوع ہوتے اور مقررہ جگہ غروب ہوتے ہیں اسی طرح محمد ﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چل رہے ہیں، اس سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وحی الٰہی کے بغیر بولتے بھی نہیں اور ستاروں کے احوال میں سے غروب کا وقت خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ عظیم مخلوق مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے۔ اپنی تمام تر وسعت، روشنی اور چمک کے باوجود اس کی مجالس نہیں کہ غروب ہونے اور ڈوبنے سے انکار کرسکے۔ (واللہ اعلم) اس تقریر کی مزید تفصیل سورة تکویر کی آیات (15 تا 19) :(فلا اقسم بالخنس …انہ لقول رسول کریم) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسری تقریر یہ ہے کہ ستاروں سے مراد شہاب ثاقب ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کی طرف بھیجی جانے والی وحی کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شیطان آسمان کے نیچے جا کر اسے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر ہر طرف سے شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں جو اسے جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ دیکھیے سورة صافات (6 تا 10) اور سورة جن (8، 9)۔ حفاظت کا یہ زبردست انتظام شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے سیھے راستے پر قائم ہیں اور ان پر نازل ہونے والی وحی الٰہی میں کسی قسم کی مداخلت یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی بات سورة واقعہ کی آیت (75):(فلا اقسم بموقع النجوم) میں بیان فرمائی گئی ہے۔
Top