Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 4
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا وَحْيٌ : مگر ایک وحی ہے يُّوْحٰى : جو وحی کی جاتی ہے
وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔
(1) ان ھو الا وحی یوحی :”ھو“ سے مراد یا تو قرآن مجید اور دین ہے جس کے متعلق مشرکین کہتے تھے کہ آپ ﷺ نے اسے اپنے پاس سے بنا لیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ام یقولون افترہ بل ھو الحق من ربک) (السجدۃ : 3)”یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہی ہے۔“ اس لئے قرآن اور دین کے متعلق فرمایا کہ وہ وحی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا :(فانھم لایکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون) (الانعام : 33)”تو بلاشبہ وہ تجھے جھوٹا نہیں کہتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔“ یا اس ”ھو“ سے مراد ”ینطق“ کے ضمن میں پایا جانے والا ”منطوق بہ“ ہے، یعنی وہ بات جو وہ بولتا ہے وحی کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ ہر بات وحی کے بعد ہی کرتے تھے ؟ اگر ہاں کہا جائے تو ان متعدد باتوں کے متعلق کیا کہا جائے گا جن کی اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی ؟ مثلاً فرمایا :(عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) (التوبۃ : 33) ”اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انہیں کیوں اجازت دی۔“ اور فرمایا :(ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی ینحن فی الارض) (الانفال : 68)”کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے۔“ اور فرمایا :(مان کان للنبی و الذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین) (التوبہ : 113)”اس نبی اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔“ اور فرمایا :(یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) (التحریم 1)”اے نبی ! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ہے ؟“ عالوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو صحباہ ؓ کے ساتھ مشورے کا حکم دیا، فرمایا :(وشاورھم فی الامر) (آل عمران : 159)”اور کام میں ان سے مشورہ کر۔“ جب کہ وحی کے بعد نہ مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی۔ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ یہاں ان باتوں کو وحی قرار دیا جا رہا ہے جو آپ ﷺ لوگوں کے سامنے قرآن مجید یا شریعت کے حکم کے طور پرب یان فرماتے تھے۔ مفسر ابن کثیر ؒ نے فرمایا :”ان ھو الا وحی یوحی“ ای انما یقول ما امر بہ یبلغہ الی النسا کاملاً موفراً من غیر زیادۃ ولا نقصان“”یعنی ”ان ھو الا وحی یوحی“ کام طلب یہ ہے کہ آپ ﷺ وہی بات کہتے تھے جس کے متعلق آپ ﷺ کو حکم دیا جاتا تھا کہ کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری پوری لوگوں تک پہنچا دیں۔“ اس وحی میں قرآن مجدید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ عبداللہ بن عمر وؓ باین کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنتا اسے حفظک رنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، تو قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سے جو بھی سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ لایک بشر ہیں، جو کبھی غصے میں بات کرتے ہیں اور کبھی خوشی میں، تو میں نے لکھنا ترک کردیا۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنے دہن مبارک کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :(اکتب فو الذی نفسی بیدہ ! مایخرج منہ الا حق) (ابو داؤد، العلم، باب کتابۃ العلم : 03636 وقال الالبانی صحیح)”لکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)”میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔“ نکلتا۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)”میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔“ تو آپ کے کسی صحابی نے کہا :”یا رسول اللہ ! آپ تو ہم سے خوش طبعی بھی کرلیتے ہیں ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :(انی لا اقول الاحقا)”بلاشبہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔“ (مسند احمد : 2/330، ح : 8381) مسند احمد کے محقق نے فرمایا۔”اسنادہ قوی“ کہ اس کی سند قوی ہے۔ (2) اس مقام پر مفسر عبدالرحمن کیلانی نے ”تیسیرا القرآن“ میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی حیثیت کے متعلق بہت مفید بحث لکھی ہے جس میں منکرین حدیث کے مغالطوں کا جواب بھی آگیا ہے۔ فوائد کے پیش نظر وہ بحث یہاں درج کی جاتی ہے :”ان آیات کے اولین مخاطب تو کافر مکہ ہیں، مگر یہ آیتیں چونکہ آپ ﷺ کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں، لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے گھر جا کر اپنی کسی زوج سے یہ کہتے ہیں کہ ”میرا جوتا لاؤ“ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی ؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ ﷺ سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا اور آپ ﷺ کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں، وہ قابل اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ ﷺ کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بےکار ثابت کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں میں قسیم کردیا، حالانکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارع بھی تھے اور آپ ﷺ نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشطریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ ﷺ کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ ﷺ صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ ﷺ کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ ﷺ کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : (1) تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو بہت دفعہ آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے، کتنی نمازیں ہوں، ان کے صحیح اوقات کیا ہیں، ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوۃ کتنی وصول کی جائے ؟ قضا یا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کیلئے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے، یا نکاح میں عورت کی رضا مندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ ﷺ کے اقوال و افعال سے بےنیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ ﷺ کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ ﷺ نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں جاننے کا واحد ذریعہ آپ ﷺ کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ ﷺ نے صحابہ سے کبیھ مشورہ نہیں کیا، حالانکہ آپ ﷺ کو مشروے کا تاکیدی حکم تھا، کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ ایسے تمام امور آپ ﷺ کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائیج اتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القا ہو یا جبرئیل ؑ کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں ”وحی خفی“ کہا جاتا ہیا ور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ (2) تدبیری امور : ایسے امور میں آپ ﷺ کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، مثلاً جنگ کے لئے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا اجئے، نظام حکومت کیسے چلایا جائے ؟ گویا یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی، الایہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی ہے، جیسے غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ (3) اجتہادی امور : اس سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمد ہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہ علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے، تاہم آپ ﷺ اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ ﷺ کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور وہ مرگیا ہے، کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :”بھلا دیکھو ! اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی ؟“ اس عورت نے ”ضرور کرتی۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا :”تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔“ (بخاری، جزاء الصید، باب الحج والنذور …: 1853) آپ ﷺ کے ایسے اجتہادات اور اسنباطات کی فہرست بھی طویل ہے، تاہم اس سلسلے میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوقتادہ ؓ نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا :”یا رسول اللہ ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، درآں حالیہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں، تو کیا اللہم یرے سب گناہ معاف کر دے گا ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :”ہاں !“ وہ شخص چلا گیا تو آپ ﷺ نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا :”مگر قرضہ معاف نہ ہوگا، جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔“ (نسائی، الجھاد، باب من قاتل فی سبیل اللہ تعالیٰ و علیۃ دین : 3158۔ مسلم : 1885) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ ﷺ نے تو جنت کی بشارت دے دی، کیونک شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حق دار بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ (4) طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ ﷺ بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو ؟ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائیا ور چاہے تو دال کھائے، لیکن وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدیات ہے کہ کھانے سے پہلے ”بسم اللہ ‘ ‘ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لئے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنا ک اور بار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام ک اور بار نہیں کرسکتا، نہ جائز ک اور بار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ماپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بےنیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں، لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ”وما ینطق“ کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے ؟ اور اس نظریے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔“ (تیسیرا القرآن)
Top