Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 55
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ : پس کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے ساتھ۔ پس ساتھ کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے تَتَمَارٰى : تم جھگڑتے ہو
پس تو اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس میں شک کرے گا ؟
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ”تمری یتماری تماریا“ (تفاعل) شک کرنا۔ ”الائ“”الی“ (جو اصل میں ”الی“ تھا) کی جمع ہے ، نعمتیں ، جیسا کہ ”معی“ کی جمع ”امعائ“ ہے ، انتڑیاں۔ یہاں سوال ہے کہ ان اقوام کی ہلاکت کے ذکر میں کون سی نعمت بیان ہوئی ہے جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔ استاد محمد عبدہٗ لکھتے ہیں : ”سیاق کلام کی بناء پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے ، معلوم ہوا کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے“ (اشرف الحوشی) ایک جواب اس کا یہ ہے کہ ظلم اور سرکشی کے انجام سے آگاہ کردینا بھی بہت بڑا انعام ہے، جیسا کہ سورة ٔ رحمن میں مجرموں کے لیے جہنم کا عذاب بیان کرنے کے بعد فرمایا :(فبای الاء ربکما تکذبن) (الرحمن : 45) ”تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے“۔
Top