Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا فرمائے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں رکھتا۔
1۔ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ۔۔۔۔:”لا تاسوا“ ‘”اسی یا سی اسی“ (خشیی یخشی) (غمگین ہونا) سے نفی مضارع معلوم ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ سے فرمایا :(فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰـسِقِیْنَ) (المائدہ : 26)”پس تو ان نافرمان لوگوں پر غم نہ کرو“۔ اور شعیب ؑ نے اپنی قوم کو ہلاک ہونے پر فرمایا :(فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰـفِرِیْنَ) (الاعراف : 93)”تو میں نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں“”اتکم“”اتی یاتی اتینا“ (ض) آنا اور ”آتی یوتی ایتائ“ (الاعراف : 93)“ تو میں نے نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں۔“”اتکم“ ”اتی اتیانا“ (ض) آنا اور ”آتی یوتی ایتائ“ (افعال) دینا۔ یعنی ہم نے تمہیں یہ بات بتادی ہے ، تا کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ، خواہ ملنے کے بعد چلی جائے یا مل ہی نہ سکے ، اس پر تم غم نہ کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ ، کیونکہ جب تم جان لوگے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے تو ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر تم زیادہ غمگین نہیں ہوگے اور ملنے والی چیز پر اتراؤ گے نہیں ، کیونکہ جسے معلوم ہو کہ جانے والی چیز نے جانا ہی تھا تو وہ اس کے جانے پر زیادہ جزع فزع نہیں کرتا ، اس لیے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اس کے لیے تیار رکھتا ہے۔ اس طرح جب اسے معلوم ہو کہ جو فائدہ اسے حاصل ہونا ہے وہ ہونا ہی ہونا ہے ، ممکن ہی نہیں کہ حاصل نہ ہو تو وہ اس کے حاصل ہونے پر اترائے گا نہیں ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ میری بہادری سے حاصل نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی اللہ کی تقدیر سمجھ کر نقصان پر صبر کرے گا اور فائدے پر اپنی خوبی سمجھنے کے بجائے اللہ کا شکر کرے گا۔ 2۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے آدمی کو کوشش بھی کرنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوشش کے بعد اگر ناکامی ہو تو غم نہیں بلکہ صبر کرنا چاہیے اور کامیابی کی صورت میں فخر و غرور نہیں بلکہ شکر بجا لانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو تقدیر پر ایمان کا فائدہ قرار دیا ہے اور اسی عقیدہ پر کار بند رہ کر زندگی میں اعتدال رہتا ہے اور آدمی افراط و تفریط سے محفوظ رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(المومن القوی خیر واجب الی اللہ من المومن الضعیف و فی کل خیر ، احرص علی ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز و ان اصابک شی فلا تقل لو انی فعلت کان کداوکدا ولکن قل قدر اللہ وما شاء فعل فان لو تفتع عمل الشیطان) (مسلم ، القدر ، باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز۔۔۔۔: 2664، عن ابی ہریرۃ ؓ)”طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہوجاتا ، بلکہ یوں کہہ کہ اللہ نے قستم میں (اسی طرح) لکھا تھا اور جو اس نے چاہا کردیا ، کیونکہ ”لو“ (اگر) کا لفظ شیطان کا کام کھول دیتا ہے“۔ 3۔ یہاں ایک سال ہے کہ مصیبت پر غم اور راحت پر خوشی انسانی فطرت ہے ، پھر ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر غم سے اور عطا ہونے والی چیز پر خوش ہونے سے کیوں منع فرمایا ، جب کہ ان پر ہمارا اختیار ہی نہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ منع اس غم سے کیا گیا ہے جو اس حد تک پہنچ جائے کہ آدمی جزع فزع اور اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگے۔ اگر اللہ کی رضا پر راضی رہے تو غم پر کوئی مواخذہ نہیں ، بلکہ اس پر صبر کا اجر بھی ملتا ہے۔ اگر غم ہی نہ ہو تو صبر کس بات پر ہوگا ؟ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : (ان العین تدمع والقلب یحزن ، ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا ابراہیم ! لمحزونون) (بخاری الجنائز ، باب قول النبی ﷺ :”انا بک لمحزونون“: 1303)”آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے اور ہم اس کے سوا جو ہمارا رب پسند فرمائے کچھ نہیں کہتے اور یقینا تیری جدائی سے اے ابراہیم ! ہم غمزدہ ہیں۔“ اسی طرح منع اس خوش ہونے سے کیا گیا ہے جو آدمی کو شکر کے بجائے فخر و غرور تک پہنچا دے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ”واللہ لا یحب کل محتال فخور“ ہیں۔ ہر خوشی سے منع نہیں کیا گیا ، کیونکہ اگر خوشی ہی نہ ہو تو شکر کس بات پر کرے گا ؟۔ 4۔ وَ اللہ ُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ :”محتال“”خ ی ل“ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے ، جو اپنے خیال میں بڑا بننے والا ہو، متکبر۔”فخور“ ”فخر“ میں سے مبالغے کا صیغہ ہے ، جو دوسروں کے سامنے بہت فخر کرنے والا ہو۔ تقدیر کو مد نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہر کامیابی کو اپنی بہادری اور کارکدگی سمجھنا ہے ، جس سے آدمی میں تکبر اور فخر پیدا ہوتا ہے ، حالانکہ اگر آدمی کی اپنی کارکردگی بھی ہو تو وہ ، بلکہ اس کا اپنا وجود سب اللہ تعالیٰ کی عطاء ہے اور اس نے یہ سب کچھ پہلے لکھ دیا ہے ، پھر جو شخص اس پر شکر کے بجائے تکبر و فخر کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت کیسے کرسکتا ہے ؟ 5۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں ، ایک ”اعلموا انما الحیوۃ الدنیا لعب ولہو۔۔۔۔“ اور دوسری ”ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم۔۔۔۔“ پھر فرمایا :(لکیلا ناسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتکم) مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا فانی ہونا مثال دے کر اس لیے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ ، بلکہ یاد رکھو یہ عارضی اور فانی ہے اور ہم نے یہ بات کہ ہر مصیبت پہلے سے لکھی ہوئی ہے ، اس لیے بتائی ہے کہ تم اس کے آنے پر زیادہ غم نہ کرو ، گویا یہ لف کثیر غیر مرتب ہے۔ یہ تفسیر بھی پر لطف ہے۔
Top