Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 9
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور (ان کے لیے) جنھوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنا لی ہے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
1۔ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ :”بوا یبوی“ (تفعیل) جگہ دینا ، ٹھکانہ دینا ، جیسا کہ فرمایا :(وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ) (یونس : 93) ’ ’ اور بلا شبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانہ دیا ، با عزت ٹھکانہ۔”تبوا یتبوا“ کسی جگہ میں ٹھکانہ بنانا ، مقیم ہونا۔”الدار“ میں الف لام عہد کا ہے ، اس گھر میں جہاں مہاجرین ہجرت کر کے پہنچے۔ ”دار ہجرت“ مدینہ منورہ کا لقب ہے ، امام مالک ؒ تعالیٰ کو اسی لیے ”امام دار الجھرۃ“ کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔ یعنی اموال فے فقراء مہاجرین کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی دار ہجرت اور ایمان میں جگہ بنا لی تھی ، یعنی پہلے ہی مدینہ میں رہتے تھے اور ایمان لے آئے تھے۔ ایمان لانے کے لیے یہاں ایمان میں جگہ اور ٹھکانہ بنانے کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ استعارہ ہے جس میں ایمان کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور ٹھکانے کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، جس میں وہ پہلے ہی داخل ہوچکے تھے۔ ان لوگوں سے مراد تمام انصار ہیں جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس وقت ایمان لائے جب کوئی مہاجر مدینہ میں نہیں آیا تھا ، یعنی بیعت عقبہ اولیٰ والے انصار اور وہ بھی جو رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ایمان لا چکے تھے جب کچھ مہاجرین آچکے تھے اور کچھ آنے والے تھے اور مکہ فتح ہونے تک مسلمان ہونے والے تمام انصار بھی ، کیونکہ وہ بھی کئی مہاجرین سے پہلے ایمان لے آئے تھے۔ 2۔ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ : یہ انصار کی دوسری فضیلت ہے کہ وہ ہجرت کر کے اپنے پاس آنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انصار نے ہجرت کر کے آنے والوں کو گلے لگایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے مہاجرین کو اپنی جائیداد ، گھر بار ، زمینوں اور باغوں میں شریک کرلیا اور اتنے اصرا ر کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کو اپنے گھروں میں ٹھہرانے کی کوشش کی کہ مہاجرین کو قرعہ ڈال کر ان کے گھروں میں تقسیم کیا گیا ، جیسا کہ ام علاء انصاریہ ؓ نے فرمایا :(انھم اقتسموا المجھاجرین قرعۃ، قالت فطار لنا عثمان بن مظعون، وانزلناہ فی ابیاتنا) (بخاری ، التفسیر ، باب رویہ النسائ، 7003) ”انصار نے مہاجرین کو قرعہ کے ساتھ تقسیم کیا ، ہمارے حصے میں عثمان بن مظعون آئے ، تو ہم نے انہیں اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا“۔ اس محبت کا مظہر مواخات تھی ، جس کی وجہ سے سعد بن ربیع انصاری ؓ نے عبد الرحمن بن عوف ؓ کو اپنی ساری جائیداد اور تمام مکانوں میں سے نصف کی اور دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد ان کے نکاح میں دینے کی پیش کش کی ، جس پر انہوں نے انہیں برکت کی دعا دی مگر یہ پیش کش قبول نہ کی۔ (دیکھئے بخاری : 2049) انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا :(یا رسول اللہ ! ما راینا رمثل قوم یدمنا علیھم احسن مواساۃ فی قلیل ، ولااحسن بدلا فی کثیر ، لقد کفونا المثونۃ ، واشر کونا فی المھنا ، حتی لقد حسبنا ان یدھبوا بالاجر کلہ ، قال لا ، مااینتم علیھم ، ودعوتم اللہ عزوجل لھم) (مسند احمد : 3، 200، 201، ح : 13075، قال المحقق ، سنادۃ صحیح علی شرط الشیخین، ترمذی : 2487) ”اے اللہ کے رسول ! ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے جن کے پاس ہم آئے ہیں ، جو تھوڑے میں اچھی سے اچھی غم خواری کرتے ہوں اور زیادہ میں بہتر سے بہتر خرچ کرتے ہوں۔ وہ ہماری جگہ خود محنت مشقت کر رہے ہیں اور انہوں نے آمدنی میں ہمیں شریک کر رکھا ہے ، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتا ہے کہ سارا اجر وہی لے جائیں گے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا :”نہیں ، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے“۔ انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو بلایا تا کہ بحرین کا علاقہ بطور جاگیر ان کے لیے لکھ دیں۔ انہوں نے کہا :”جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم نہیں لیں گے“۔ آپ ﷺ نے فرمایا :(اما لا ، فاصبروا حتیٰ تلقونی ، فانہ سیصیبکم بعدی اترۃ) (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قول النبی ﷺ للانصار : ”اصبروا حتی ً تلقوانی علی الحوض“: 3794)”اگر تم نہیں لیتے تو صبر کرو ، یہاں تک کہ مجھ سے آملو ، کیونکہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی“۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی ﷺ سے کہا :”اے اللہ کے رسول ! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجئے“۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”نہیں۔“ تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا : ’ ’ تمہ ہماری جگہ محنت کرو گے اور ہم تمہیں پھلوں کی پیداوار میں شریک کرلیں گے“۔ مہاجرین نے کہا :”ہم نے تمہاری بات سنی اور مان لی“۔ (بخاری ، الحرث والمزارعۃ ، باب اذا قال اکنفی موونۃ النحل۔۔: 2325) 3۔ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا : یعنی انصار کے دل میں مہاجرین کی ایسی محبت اور ہمدردی ہے کہ مہاجرین کو کوئی چیز دی جائے تو انصار کے دل میں اپنے لیے اس کی خواہش تک پیدا نہیں ہوتی ، اس کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کی چھوڑی ہوئی تمام زمینیں اور باغات مہاجرین کو دے دیئے اور انصار نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ 4۔ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ط :”خص یخص خصاصۃ وخصاصا وخصاصاء (ع)“”افتفر“ محتاج ہونا ”خصاصۃ“ فقر و فاقہ۔ اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرنا بھی اگرچہ خوبی ہے ، مگر وہ تھوڑا بہت جو آدمی کے پاس ہو ، خود فقر و فاقہ برداشت کرتے ہوئے اسے دوسرے پر خرچ کردینا بہت ہی اونچی بات ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا :”یا رسول اللہ ﷺ ! کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :(جھد المقل وابداء بمن نقول) (ابو داؤد ، الزکاۃ ، باب الرخصۃ فی ذلک : 1677، وقال الالبانی صحیح)”کم مال والے کی کوشش اور ابتداء اس سے کرو جس کی تم پرورش کر رہے ہو“۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا ، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(من یضم او یضیف ھذا ؟)”اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا ؟“ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا :”میں لے جاؤ گا۔“ چناچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا :”رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کرو“۔ اس نے کہا :”ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں“۔ اس نے کہا :”کھانا تیار کرلو ، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو۔“ اس نے کھاناتیار کرلیا ، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ دراست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں ، مگر انہوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :(صحک اللہ اللیلۃ او عجب من فعالکما) ”آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔“ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) (الحشر : 9) ”اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ، خواہ انہیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں“۔ (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قول اللہ عزوجل :(ویوثرون علی انفسھم۔۔۔۔۔) : 3798۔ مسلم : 2054) صحیح میں اس انصاری کا نام بھی مذکور ہے کہ وہ ابو طلحہ ؓ تھے۔ 5۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ۔۔۔۔۔”یوق“ ”و فی یقی و قایۃ“ (ض) (بچانا) سے فعل مضارع مجہول ہے ، اصل میں ”یوفی“ تھا، ”من“ کے جزم دینے کی وجہ سے الف گرگیا۔ راغب نے فرمایا :’ ’ الشح بخل مع حرص و فتک فیا کانت عادۃ“”شح“ وہ بخل ہے جس کے ساتھ حرص بھی ہو اور یہ آدمی کی عادت ہو۔”یعنی“ شح یہ نہیں کہ آدمی کسی وقت بخل کر جائے یا حرض سے کام لے لے ، بلکہ یہ دونوں چیزیں اس کی عادت ہوں۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ”شح“ یہ ہے کہ جو آدمی کے پاس ہو اس پر بخل کرے اور جو نہیں اس کی حرص رکھے۔”وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ“ سے ظاہ رہے کہ ہر انسان میں یہ عادت پائی جاتی ہے ، بچتا وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ بچائے اور جنہیں اس بری خصلت سے بچا لیا جائے وہی کامیاب ہیں۔ آیت میں ”شح“ سے بچنے کی تاکید اور فضیلت کا ب یان ہے ، پھر جو کوشش کرے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ) (العنکبوت : 69)”اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بلا شبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔ اور ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ومن یستعفف یعفہ اللہ ومن یستغن یعنہ اللہ ، ومن یتصبر یصبرہ اللہ ، وما اعطی احد عطاء خیرا و اوسع من الصبر) (بخاری ، الزکۃ باب الاستعفاف عن المسئلۃ : 1469) ”اور جو (سوال سے) بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا اور جو غنی بننے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی بنا دے گا اور جو صبر کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطاء کردے گا اور کسی شخص کو کوئی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے اچھا اور زیادہ وسیع ہو“۔ اور جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(اتقوا الظلم فاک الظلم ظلمات یوم القیامۃ واتقوا الشح فان الشح اھلک من کان قبلکم حملھم علی ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم) (مسلم ، البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم : 2587)”ظلم سے بچو ، کیونکہ ظلم قیامت کے دن بہت سی تاریکیاں ہوگا اور ’ ’ شح“ (بخل و حرص) سے بچو ، کیونکہ شح نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے تھے۔ اس نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ انہوں نے اپنے خون بہائے اور اپنے اوپر حرام چیزوں کو حلال کرلیا“۔ 6۔ اس آیت میں انصار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انہی کے ساتھ خاص ہیں بلکہ وہ مہاجرین میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی ہجرت ہی ان تمام صفات کی جامع ہے ، کیونکہ آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ ، اسکے رسول اور ایمان والوں کی محبت اور انہیں اپنے جان و مال پر ترجیح دیے بغیر ہجرت کرسکے۔ پھر ہر موقع پر انصار کی طرح مہاجرین نے بھی جس طرح اپنے مال و جان کو اللہ کی راہ میں قربان کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جنگ تبوک کے موقع پر ابوبکر صدیق ؓ گھر میں جو کچھ تھا سب لے آئے اور عمر ؓ آدھا سامان لے آئے۔ یہ ”شیخ“ سے محفوظ ہونے اور ایثار کی بلند ترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح پہلی آیت میں مہاجرین کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف انہی کے ساتھ خاص ہیں ، بلکہ وہ انصار میں بھی موجود تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے دوست اور سچے مومن قرار دیا ہے۔ چناچہ فرمایا :(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط) (الانفال : 72)”بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور انپے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ، یہ لوگ ! انکے بعض بعض کے دوست ہیں“۔ اور اس کے بعد فرمایا :(وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْا اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا) (الانفال : 74)”اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں“۔ غرض مہاجرین و انصاری میں سے کوئی بھی فضیلت میں کمی نہیں ، تا ہم مہاجرین کو اپنی نصیحت کی وجہ سے انصار پر ایک قسم کی برتری حاصل ہے ، اس لیے ان آیات میں ان کا ذکر پہلے آیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے موقع پر انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :(اترضون ان یدھب الناس بالشاۃ والبعیر ، وتذھبون بالنبی ﷺ الی رحالکم ؟ لولا الھجرۃ لکنت امرا من الانصار ولو سلک الناس وادیا وشعبا لسلکت وادی الانصار وشعبھا ، الانصار شعار والناس دثار) (بخاری ، المغازی ، باب غزوۃ الطائف فی شوال سنۃ ثمان : 433)”کیا تم پسند کرتے ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم نبی ﷺ کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک آدمی ہوتا اور اگر لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار شعار (جسم کے ساتھ ملا ہوا کپڑا) ہیں اور دوسرے لوگ دثار (اوپر لیا جانے والا کپڑا) ہیں“۔
Top