Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 64
یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ قُلِ اسْتَهْزِءُوْا١ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ
يَحْذَرُ : ڈرتے ہیں الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) اَنْ تُنَزَّلَ : کہ نازل ہو عَلَيْهِمْ : ان (مسلمانوں) پر سُوْرَةٌ : کوئی سورة تُنَبِّئُهُمْ : انہیں جتا دے بِمَا : وہ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل (جمع) قُلِ : آپ کہ دیں اسْتَهْزِءُوْا : ٹھٹھے کرتے رہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ مُخْرِجٌ : کھولنے والا مَّا تَحْذَرُوْنَ : جس سے تم ڈرتے ہو
منافق ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی ایسی سورت اتاری جائے جو انھیں وہ باتیں بتادے جو ان کے دلوں میں ہیں۔ کہہ دے تم مذاق اڑاؤ، بیشک اللہ ان باتوں کو نکالنے والا ہے جن سے تم ڈرتے ہو۔
يَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ : اب منافقین کی مزید کمینی حرکتوں کا ذکر ہوتا ہے اور کافی آگے تک چلا جاتا ہے، اس بنا پر اس سورت کو ”الفاضحہ“ بھی کہتے ہیں، یعنی منافقوں کے راز کھولنے والی اور ان کو رسوا کرنے والی۔ منافقین بظاہر ایمان کے باوجود دل میں رسول اللہ ﷺ سے کفر رکھتے تھے، ان میں سے بعض رسول اللہ ﷺ کو سچا سمجھنے کے باوجود ضد اور تعصب کی وجہ سے دل میں آپ سے کفر رکھتے تھے، کچھ شک میں مبتلا تھے، اس لیے ایمان سے خالی تھے اور جو بالکل دل سے آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے وہ بھی کئی دفعہ مشاہدہ کرچکے تھے کہ جوں ہی وہ ایسی کوئی بات یا حرکت کرتے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے رسول اللہ ﷺ کو آگاہ کردیتا، اس لیے وہ اپنے دلی کفر کی وجہ سے کبھی کبھی آپس میں اپنے دلی بغض کا اظہار کرلیتے، مگر ساتھ ہی خوف زدہ رہتے کہ کوئی سورت اترے گی جو ان کے راز اور دلی کیفیت ان کے سامنے اور مسلمانوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گی۔ ”تُنَبِّئُهُمْ“ میں ”ھُمْ“ کی ضمیر منافقوں کی طرف بھی جاسکتی ہے اور مومنوں کی طرف بھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم مذاق اڑا لو، تم جس بات کے ظاہر ہونے سے ڈر رہے ہو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے سب کے سامنے لے آنے والا ہے۔
Top