Anwar-ul-Bayan - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور آپ کا رب ایسا نہیں ہے جو بستیوں کو بطور ظلم کے ہلاک فرما دے حالانکہ ان کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں۔
پھر فرمایا (وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ ) یعنی آپ کا رب ایسا نہیں ہے کہ لوگوں پر ظلم کرے وہ جو عذاب دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے اس کا سبب کفر اور شرک ہوتا ہے اور کبھی معاصی بھی ہوتے ہیں ان معاصی میں سے یہ بھی ہے کہ جو لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں قدرت ہوتے ہوئے انہیں نہ روکا جائے جب لوگ اصلاح کے کام میں لگے ہوئے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نہیں آئے گا ورنہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس کسی بھی قوم میں کوئی ایسا شخص ہو جو ان میں رہتے ہوئے گناہوں میں مبتلا ہو اور وہ قدرت ہوتے ہوئے اس کی حالت کو نہ بدلیں تو مرنے سے پہلے اللہ ان پر عذاب بھیجے گا۔ (رواہ ابو داؤد ‘ ص 240 ج 2) اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی قوم میں گناہ کئے جاتے ہوں پھر وہ قدرت ہوتے ہوئے گناہگاروں کی حالت نہ بدلیں تو اللہ ان سب پر عام عذاب بھیج دے گا۔ (رواہ ابو داؤد ‘ ص 240 ج 2) آیت کا معنی اور مفہوم بتانے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ احقر نے جو مطلب ترجمہ و تفسیر میں اختیار کیا ہے وہ اقرب الی الفہم ہے اس آیت کا دوسرا مفہوم علامہ قرطبی (رح) نے زجاج (رح) سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں : قال الزجاج یجوز ان یکون المعنی ما کان ربک لیھک احدا وھو بظلمہ وان کان علی نھایۃ الصلاح لانہ تصرف فی ملکہ اھ (زجاج نے کہا ہے ہوسکتا ہے یہ معنی ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ہلاک کرتا ہے تو یہ ظلم نہیں ہے اگرچہ وہ آدمی انتہائی نیک ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ملکیت میں تصرف کیا ہے۔ )
Top