Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے کیا یہ شخص اس شخص کی طرح سے ہوسکتا ہے جو اندھا ہو۔ نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں
اہل ایمان کے اوصاف ‘ اور ان کے انعامات اور نقض عہد کرنے والوں کی بد حالی کا تذکرہ : یہ متعدد آیات ہیں پہلی آیت میں فرمایا کہ جس شخص کو اس بات کا علم ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا وہ حق ہے کیا اس بات کا جاننے والا اندھے آدمی کے برابر ہوسکتا ہے جو علم کے اعتبار سے اندھا ہے اور آپ پر جو نازل کیا گیا ہے اسے نہیں جانتا (نہ جاننے میں یہ بھی داخل ہے کہ جانتے ہوئے مانتے نہیں) جاننے والا بینا ہے اور نہ جاننے والا نابینا ہے ‘ کیا بینا نابینا برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ! پھر فرمایا (اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِِ ) (بس عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں) قرآن مجید تو سبھی کے سامنے ہے جو بہت بڑا معجزہ ہے اور اس کی دعوت بھی عام ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے جن کے پاس قرآن کے مضامین پہنچتے ہیں ان میں سے جنہوں نے اپنی عقل کو بےکار نہیں کردیا اور اپنی فکر اور فہم کو قرآن کی دعوت حق کے سمجھنے سے معطل نہیں کردیا وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ‘ اگر کسی کے پاس عقل ہے لیکن وہ عقل خیر کی طرف نہیں آنے دیتی امور دنیا میں سیاسیات میں ریاضیات میں فلکیات میں کام کرتی ہے لیکن جس ذات پاک نے ان کو عقل اور فہم دی ہے اس کو وحدہ لا شریک ماننے پر تیار نہیں اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ان کی عقلیں چونکہ ان کے حق میں مضر ہیں اس لیے یہ لوگ بےعقل ہونے کے درجہ میں ہیں پھر اولوا الْاَلْبَابِ (عقل والوں) کی چندصفات بیان فرمائیں جن سے وہ ایمان قبول کرنے کے بعد متصف ہوئے پہلی اور دوسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ ) کہ یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور عہد کو توڑتے نہیں ہیں ‘ اللہ سے جو عہد کئے ان میں سے ایک عہد تو وہی ہے جس کا سورة اعراف میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی ساری ذریت کو ان کی پشت سے نکالا جو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح تھے پھر ان سے عہد لیا اور سوال فرمایا (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں) سب نے جواب میں عرض کیا بلٰی ہاں آپ ہمارے رب ہیں یہ وعدہ وادی نعمان میں عرفات کے قریب لیا گیا تھا (کما فی المشکوٰۃ ص 124 از مسند احمد) اس وقت سب نے یہ عہد کرلیا تھا پھر عہد کی یاد دہانی کے لیے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لاتے رہے ‘ ہر شخص کا اپنا عہد الگ الگ بھی ہے جس نے دین اسلام کو اپنا دین بنا لیا اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرلیا کہ میں آپ کے حکموں پر چلوں گا اور آپ کی فرماں برداری کروں گا یہ عہد تمام احوال اور اعمال سے متعلق ہے اللہ کی شریعت کے مطابق سب پر لازم ہے سورة نحل میں فرمایا (وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عَاھَدْتُمْ ) (اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے عہد کرلیا) پھر اولو الالباب کی تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ ) (اور وہ لوگ اس چیز کو جوڑتے ہیں جس کو جوڑ رکھنے کا اللہ نے حکم دیا) صلہ رحمی کرنا اور اہل ایمان سے دوستی رکھنا اور ایمان باللہ کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا اس میں یہ سب داخل ہے۔ (صلح رحمی کی فضیلت اور قطع رحمی کی مذمت جاننے کے لیے سورة نساء کے پہلے رکوع کی تفسیر کا مطالعہ کیجئے) ۔ (انوار البیان جلد اول) اولو الالباب کی چوتھی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ) (کہ وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں) اور پانچویں صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَیَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ ) (کہ یہ لوگ برے حساب سے ڈرتے ہیں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اس بات کا خوف لگا رہنا کہ قیامت کے دن حساب ہوگا اس سے ایمان میں جلا پیدا ہوتی ہے اور ایمانی تقاضوں کے مطابق عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے حساب دو قسم کا ہے حساب یسیر (آسان حساب) اور حساب عسیر (سخت حساب) سخت حساب کو سوء الحساب سے تعبیر فرمایا اور سورة انبیاء میں فرمایا (وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَّاِنْ کَان مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا) (اور قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو حاضر کردیں گے) حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ حساب یسیر (آسان حساب) کیا ہے آپ نے فرمایا کہ آسان حساب یہ ہے کہ اعمالنامہ میں دیکھ کر در گزر کردیا جائے ‘ اے عائشہ جس سے مناقشہ کیا گیا یعنی چھان بین کی گئی (کہ یہ عمل کیوں کیا مثلاً ) تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 447۔ مسند احمد) (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی چھٹی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ ) (اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبر کیا) پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صبر کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے مصیبتوں پر صبر کرنا (یہی معنی زیادہ معروف ہے) نیکیوں اور فرماں برداریوں پر جما رہنا اور ثابت قدم رہنا تیسرے اپنے نفس کو گناہوں سے بچائے رکھنا تینوں قسم کے صبر کا بڑا اجر وثواب ہے اس دنیا کا یہ مزاج ہے کہ تکلیفوں کے بغیر اس میں گزارہ ہو ہی نہیں سکتا مومن اور کافر سب کو تکلیف پہنچتی ہے اور سب کو صبر کرنا پڑتا ہے لیکن مومن چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کرنے کے لیے صبر کرتا ہے اس لیے اسے اس پر ثواب ملتا ہے ‘ سورة زمر میں فرمایا (اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) (صبر کرنے والوں کو ان کا صلہ بیشمار ہی ملے گا) ۔ وقت گزرنے پر تکلیف ہلکی ہوجاتی ہے اور صبر آ ہی جاتا ہے یہ ایک طبعی چیز ہے اس صبر پر کوئی ثواب نہیں ملتا صبر وہی معتبر ہے جو عین دکھ تکلیف اور مصیبت کے وقت ہو اور اللہ کی رضا کے لیے ہو ‘ اور یہ خاص مومن ہی کی شان ہے صبر کی فضیلت اور اہمیت جاننے کے لیے آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) کی تفسیر (انوار البیان ج 1) ملاحظہ فرمائیے ‘ جس نے مصیبت اٹھائی اور صبر نہیں کیا یا صبر کیا مگر اللہ کے لیے نہ کیا وہ بڑے خسارہ میں ہے انما المصاب من حرم الثواب (واقعی مصیبت زدہ وہ ہے جسے تکلیف بھی پہنچی اور ثواب بھی نہ ملا) ۔ (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ) (ان لوگوں نے نماز کو اس کے حقوق اور شرائط وآداب کے ساتھ قائم کیا) اور آٹھویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً ) (ان لوگوں نے ہمارے دئیے ہوئے مالوں میں سے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طور پر خرچ کیا) اس میں فرض زکوٰۃ صدقات واجبہ ‘ تبرعات وتطوعات ‘ سب داخل ہوگئے (سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً ) فرما کر یہ بتادیا کہ کبھی پوشیدہ طور پر خرچ کرنے کی فضیلت ہوتی ہے اور کبھی ظاہری طور پر خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ‘ حسب موقع اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کیا جائے جب اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو لوگوں کے سامنے خرچ کرنے میں بھی کچھ حرج نہ ہوگا کیونکہ ریا کاری اور اللہ کی رضا جوئی دونوں جمع نہیں ہوسکتے ‘ جب اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو لوگوں کے سامنے عمل کرنا کچھ مضر نہیں ہوگا۔ (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی نویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَیَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ ) (کہ یہ لوگ حسن سلوک کے ذریعہ بد سلوکی کو دفع کرتے ہیں) دنیا میں جب انسان آیا ہے تو اس کا اچھوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور برے لوگوں سے بھی ‘ جن لوگوں کو اخلاق حسنہ نہیں سکھائے گئے اور جن کے مزاج میں کمینہ پن اور گناہ گاری اور ایذاء رسانی ہوتی ہے ان سے اہل خیر کو اور حسن اخلاق والوں کو تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں ‘ جس کسی نے کوئی تکلیف پہنچائی اس کا بدلہ لینا بس اسی قدر جائز ہے جتنی تکلیف پہنچائی ہے لیکن بدلہ نہ لینا ‘ معاف کرنا ‘ درگزر کرنا اور اس سے آگے بڑھ کر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ اچھائی سے پیش آنا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا یہ بہت بڑی فضیلت اور ہمت کی بات ہے۔ سورة شوریٰ میں فرمایا (وَجَزَاءُ سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ) (اور برائی کا بدلہ برائی ہے ویسی ہی پھر جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے واقعی اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا) نیز فرمایا (وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَاِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) (اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے) ۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) (اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کیجئے پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے) ۔ رسول اللہ ﷺ اسی پر عمل فرماتے تھے در گزر فرماتے تھے ‘ معاف فرماتے تھے ‘ بدسلوکیوں کا بدلہ خوش اخلاقی سے دیتے تھے جب مکہ معظمہ فتح فرما لیا تو وہاں کے رہنے والوں سے (جنہوں نے آپ کو بڑی بڑی تکلیف دے کر مکہ معظمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا) درگزر فرمایا اور فرمایا (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ آپ کے بندوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 434 از بیہقی فی شعب الایمان) (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی صفات بیان کرنے کے بعد ان کو خوشخبری دی اور ان کے لیے آخرت کی نعمتوں کا وعدہ فرمایا اول تو یوں فرمایا (اُولٰءِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ) ان لوگوں کے لیے آخرت میں اچھا انجام ہے (جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا) ان کے اعمال کا یہ نتیجہ اور انجام کی خوبی اس طرح ظاہر ہوگی کہ یہ لوگ باغیچوں میں رہیں گے جن میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ نہ صرف یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے بلکہ ان کے باپ دادوں میں اور ان کی بیویوں میں اور ان کی اولاد میں جو بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے اپنے بڑوں اور چھوٹوں اور بیویوں کو جنت میں دیکھ کر خوشی دوبالا ہوگی اور فرحت پر فرحت حاصل ہوگی۔ بعض مفسرین نے آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰکے فضل سے نیک بندوں کو جنت میں جو مقام اور مرتبہ ملے گا اللہ تعالیٰ وہی درجہ ان کی رعایت فرماتے ہوئے ان کے متعلقین کو بھی عطاء فرما دے گا جس کا آیت میں ذکر ہے ‘ بعض حضرات نے اباءھم کے عموم میں ماؤں کو بھی داخل کیا ہے جیسا کہ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے پھر فرمایا (وَالْمَلٰءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ ) (فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے) (سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) اور یوں کہیں گے کہ دنیا میں جو تم نے صبر کیا اس کے عوض تم دکھ تکلیف اور مصیبت سے محفوظ رہو گے ہمیشہ تمہارے لیے سلامتی ہے (فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) سو اس جہان میں اچھا انجام ہے ‘ دنیا والے گھر میں ایمان اور اعمال صالحہ کو اختیار کیا تو اس کے عوض اس جہاں میں بہترین عیش اور آرام نصیب ہوگا۔
Top