Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک (اللہ کے قانون عدل و انصاف کے مطابق) جو لوگ ایمان لائے، جو یہودی بن گئے، اور نصرانی اور صابی (ان میں سے) جو کوئی بھی (سچے دل سے) ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر، تو ایسوں کیلئے (بلا فرق وتمیز) ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے3
186 " اَلَّذِیْنَ ہَادُوْا " کے اسلوب کی بلاغت کا بیان : عام ترجموں میں اس کا ترجمہ لفظ یہود سے کیا جاتا ہے، حالانکہ آیت کریمہ میں " یہود " یا " الیہود " کا لفظ نہیں فرمایا گیا، حالانکہ یہ مختصر تھا۔ بلکہ " اَلَّذِیْنَ ہَادُوْا " فرمایا گیا ہے۔ سو اگر اس سے مراد " یہود " یا " الیہود " کا مفہوم ہی ہوتا تو پھر اس مختصر لفظ کو چھوڑ کر " الَّذِیْنَ ہَادُوْا " کا جملہ کیوں ارشاد فرمایا جاتا، جبکہ لفظ " یہود " خود قرآن پاک میں دوسرے کئی مقامات پر ذکر بھی فرمایا گیا ہے۔ سو اسی فرق کو واضح کرنے کیلئے ہم نے اپنے ترجمے میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے " جو یہودی بن گئے " جس، سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ یہودیت وغیرہ کے نام سے جو ادیان ادیان سماویہ کے طور پر ایسے لوگوں نے اپنا رکھے ہیں، وہ درحقیقت ان لوگوں کے اپنے خود ساختہ دین ہیں، جو انہوں نے اپنی اپنی اہواء و اغراض کے مطابق خود گھڑ لئے ہیں، ورنہ اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی طرف سے اس کی مخلوق کی ہدایت و ارشاد اور فوز و فلاح کیلئے جو دین بھیجا گیا وہ ہمیشہ ایک ہی دین رہا ہے، یعنی دین اسلام، جیسا کہ ۔ { اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہ الاَسْلاَم } ۔ اور دوسری بہت سی آیات کریمہ میں اشارد فرمایا گیا ہے۔ ہٰذَا ما عِنْدِیْ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہ ۔ سو دین حق اسلام سے محروم لوگ نور حق و ہدایت سے قطعی طور پر محروم ہیں۔ اور یہ ایسے محروم اور بدبخت ہیں کہ اپنے حقیقی نفع و نقصان کے فہم وادراک سے بھی عاری ہیں جس کے باعث یہ اپنے ضرر و نقصان کو بھی فائدہ اور بہتری سمجھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ 187 " صابئین " سے مراد ؟ : " صابی " دراصل ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو ایک دین سے نکل کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے (صفوۃ البیان لمعانی القرآن) اس لئے یہ لفظ بےدین یا بددین لوگوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی بناء پر مشرکین مکہ اس شخص کو " صابی " کہا کرتے تھے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لاتا اور دین حق میں داخل ہوجاتا، اور اس طرح وہ لوگ اپنے بغض وعناد کی بنا پر اہل حق کو صابی کہہ کر اپنے معاشرے میں بدنام کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، جیسا کہ دور حاضر میں اہل بدعت اور قبر پرست لوگ حضرات اہل حق کو " وہابی " کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جہالت کے مارے بہت سے سادہ لوح عوام کو وہ اس طرح غلط فہمی میں مبتلا کر کے اپنے پھندے میں پھنسا بھی لیتے ہیں، حالانکہ " وہابی " کا، لفظ اپنی اصل حقیقت اور معنی کے اعتبار سے کوئی گالی یا عیب نہیں بلکہ ایک خوبی اور کمال کا غماز و آئینہ دار ہے۔ کیونکہ اس کے معنی " اللہ والے " کے ہیں جو ایک بڑا اعزاز ہے۔ سو اس طرح اہل بدعت اور قبرپرست لوگ خود اپنے منہ سے اہل حق کیلئے " اللہ والے " ہونے، کی شہادت اور گواہی دے رہے ہیں ۔ والحمد للہ ۔ بہرحال " صابی " ستارہ پرست یا ملائکہ پرست وغیرہ لوگوں کا ایک گروہ تھا جو گزر چکا ۔ علی اختلاف اقوال المفسرین ۔ بہرکیف ایمان و یقین کی دولت سب لوگوں کے لیے یکساں ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ 188 ایمان و یقین والوں کا اجر و صلہ محفوظ : یعنی ان کا وہ اجر وثواب جس کے ایسے لوگ اپنے عقیدہ و ایمان اور صدق و اخلاص کی بنا پر مستحق ہیں اور جس کی عظمت شان کو ان کا رب ہی جان سکتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور جب وہ ان کے رب کے یہاں محفوظ ہے تو پھر اس کے ضائع ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے، نیز جب ان کو وہ اجر و صلہ ان کے رب کے یہاں سے ملے گا تو پھر اس کی عظمت شان کا اندازہ ہی کون کرسکتا ہے کہ وہ اس اکرم الاکرمین کی طرف سے ملے گا جس کے کرم کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہائ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس ارشاد عالی سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نجات کا دارومدار حسب و نسب، قوم و قبیلہ یا شکل و صورت وغیرہ جیسے ان فوارق میں سے کسی پر نہیں جو انسان کے اپنے بس اور اس کے اختیار میں نہیں کہ یہ " تکلیف مالا یطاق " ہے، بلکہ اسکا دارومدار اور انحصار انسان کے اپنے عقیدہ و ایمان اور عمل و کردار پر ہے، جتنا کسی کا ایمان و عقیدہ صحیح اور پختہ و مضبوط ہوگا، اور جتنا اسکا عمل و کردار صحیح اور درست ہوگا، اتنا ہی وہ اپنے رب کی عنایات سے سرفراز ہوتا جائے گا، اور اللہ پاک کا قانون سب کیلئے ایک اور یکساں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ آگے معاملہ انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کا ہے۔ 189 سچے ایمان والوں کیلئے نہ کوئی خوف اور نہ غم : کیونکہ ان کے گزشتہ گناہ ایمان کی بناء پر معاف ہوگئے، کہ ۔ " اِلاِسْلامُ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہ " ۔ " اسلام گزشتہ گناہ مٹا دیتا ہے " اور آئندہ کیلئے اپنے عقیدہ و ایمان کی بناء پر ان کو خدا وند قدوس کی رحمت و عنایت کا سہارا مل گیا، تو ایسی صورت میں ان کو نہ ماضی کا کوئی غم اور افسوس ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف و اندیشہ۔ بہرکیف یہاں سے یہ ایک عام اصول اور ضابطہ بتادیا گیا ہے، کہ وہاں پر بات حسب و نسب وغیرہ کی نہیں، بلکہ ایمان و عقیدہ اور عمل صالح ہی کی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کیسا بھی ہو، جو بھی سچے دل سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا وہ اس کا صلہ و بدلہ پائے گا اور جو اس کے برعکس چلے گا، اس کو اپنا بھگتان بہرحال بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ جل و علا ۔ سو اس ارشاد سے اس بنیادی اور اصولی ہدایت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو بھی کوئی صدق دل سے ایمان لائے گا اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق اعمال صالحہ بجا لائے گا وہ اس کا اجر و صلہ پائے گا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ کسی بھی رنک و نسل اور شکل و صورت کا ہو اور اس کا تعلق کسی بھی قوم اور قبیلے سے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطا قوم قبیلے اور رنگ و نسل وغیرہ کے ان مصنوعی فوارق و امتیازات پر نہیں جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے یہاں سے ملنے والی عطا و بخشش کا تمام تر مدارو انحصار انسان کے اپنے ایمان و عقیدے اور عمل و کردار پر ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top