Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 73
اَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ١ۚ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ١ؕ قُلْ سَمُّوْهُمْ١ؕ اَمْ تُنَبِّئُوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ١ؕ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ وَ صُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
اَفَمَنْ : پس کیا جو هُوَ : وہ قَآئِمٌ : نگران عَلٰي : پر كُلِّ نَفْسٍ : ہر شخص بِمَا كَسَبَتْ : جو اس نے کمایا (اعمال) وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنا لیے لِلّٰهِ : اللہ کے شُرَكَآءَ : شریک (جمع) قُلْ : آپ کہ دیں سَمُّوْهُمْ : ان کے نام لو اَمْ : یا تُنَبِّئُوْنَهٗ : تم اسے بتلاتے ہو بِمَا : وہ جو لَا يَعْلَمُ : اس کے علم میں نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَمْ : یا بِظَاهِرٍ : محض ظاہری مِّنَ : سے الْقَوْلِ : بات بَلْ : بلکہ زُيِّنَ : خوشنما بنا دئیے گئے لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا مَكْرُهُمْ : ان کی چال وَصُدُّوْا : اور وہ روک دئیے گئے عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَمَا : تو نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ هَادٍ : کوئی ہدایت دینے والا
سو جو ذات ہر شخص کے اعمال پر مطع ہو کیا اس کے برابر وہ ہوسکتا ہے جس کی یہ صفت نہ ہو۔ لوگوں نے اللہ کیلئے شریک تجویز کرلیے آپ فرما دیجئے کہ تم ان کے نام لو کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا یا محض ظاہری لفظ کے اعتبار سے۔ بلکہ کافروں کیلئے ان کا مکر مزین کردیا گیا اور وہ لوگ راستہ سے روک دئیے گئے۔ اور اللہ جسے گمراہ کرے سو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں
(اَمْ تُنَبِّءُوْنَہٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرِْضِ ) (کیا تم اللہ کو وہ بات بتا رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق کا علم ہے تم زمین میں ہو اور اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی زمین میں ہیں اللہ کے علم میں تو اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اب جب تم شرک کر رہے ہو اور غیر اللہ کو معبود بنا رہے ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اللہ تعالیٰ کو یہ بتا رہے ہو کہ آپ کے لیے شریک بھی ہیں ‘ آپ کو ان کا پتہ نہیں ہم آپ کو بتا رہے ہیں (العیاذ باللہ) اس میں مشرکین کی جہالت اور ضلالت کو واضح فرمایا ہے۔ (اَمْ بِظَاھِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ) یعنی تم جن لوگوں کو اللہ کا شریک قرار دے رہے ہو ‘ اس بارے میں تمہارے پاس کوئی حقیقت ہے یا یوں ہی محض ظاہری الفاظ میں ان کو شریک ٹھہراتے ہو ؟ غیر اللہ کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ہے۔ صرف باتیں ہی باتیں اور دعوے ہی دعوے ہیں اور یہ سب کچھ زبانی ہے ‘ معبود بنانے کے لیے تو بہت بڑی تحقیق کی ضرورت ہے یوں ہی زبانی باتوں سے کسی کا معبود ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ (بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مَکْرُھُمْ وَصَدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ ) (بلکہ کافروں کے لیے ان کا مکر مزین کردیا گیا اور راہ حق سے روک دئیے گئے) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ مکر سے ان کا شرک اور گمراہی میں آگے بڑھتے چلے جانا اور باطل چیزوں کو اچھا سمجھنا مراد ہے ‘ ان کا یہ مکر انہیں راہ حق سے روکنے کا ذریعہ بن گیا۔ (وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ ) (اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں) (لَھُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) دنیا والی زندگی میں ان کے لیے عذاب ہے (وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ ) (اور البتہ آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے) (وَمَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ ) اس میں کافروں کو تنبیہ ہے کہ دنیا میں تمہارے لیے طرح طرح کے عذاب ہیں اور صرف دنیا ہی میں عذاب نہیں بلکہ تمہارے لئے آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے اور اللہ تعالیٰ جسے عذاب میں مبتلا فرمانے کا ارادہ فرمائے دنیاوی عذاب ہو یا اخروی عذاب اس سے کوئی بچانے والا نہیں۔ اس کے بعد جنت کا تذکرہ فرمایا (مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ) جس جنت کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا (جو کفر و شرک اور معاصی سے بچتے ہیں) اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اُکُلُھَا دَآءِمٌ وَّظِلُّھَا) (اس کے پھل ہمیشہ رہیں گے اور اس کا سایہ بھی) یعنی جنت میں جو پھل ملیں گے برابر ملتے رہیں گے پھل بھی ہمیشہ رہیں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا وہاں چونکہ سورج کا طلوع غروب نہیں اس لیے یہ سایہ جو ہوگا ہمیشہ ہی رہے گا ‘ سورة نساء میں فرمایا (وَنُدْخِلُھُمْ ظِلَّا ظَلِیْلًا) اور سورة واقعہ میں فرمایا (وَفَاکِھَۃٍ کثِیْرَۃٍ لاَّ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ) ۔
Top