Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 40
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ
وَاِنْ : اور اگر مَّا نُرِيَنَّكَ : تمہیں دکھا دیں ہم بَعْضَ : کچھ حصہ الَّذِيْ : وہ جو کہ نَعِدُهُمْ : ہم نے ان سے وعدہ کیا اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں وفات دیں فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْكَ : تم پر (تمہارے ذمے) الْبَلٰغُ : پہنچانا وَعَلَيْنَا : اور ہم پر (ہمارا کام) الْحِسَابُ : حساب لینا
اور اگر ہم آپ کو بعض وہ وعدے دکھا دیں جو وعدے ہم ان سے کر رہے ہیں یا ہم آپ کو اٹھا لیں تو بس آپ کے ذمہ پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا ہے۔
پھر فرمایا (وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ ) (الایۃ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کے مخاطبین جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں اور ہماری طرف سے جو ان پر عذاب آنے کی خبر دی جا رہی ہے اس میں آپ کو کسی طرح پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر آپ کی موجودگی میں ہم نے کوئی عذاب بھیج دیا جسے آپ نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا تو یہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا ذریعہ ہوگا اور اگر ہم نے آپ کو ان پر عذاب آنے سے پہلے اٹھا لیا تو یہ بھی کوئی فکر کی بات نہیں ہے ‘ چونکہ آپ کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے اس لیے ان کے قبول نہ کرنے پر آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے اور ایمان قبول نہ کرنے پر آپ پر عذاب لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے پہنچانا آپ کا کام ہے اور حساب لینا ہم سے متعلق ہے ‘ آپ اپنا کام کرتے رہیں قال صاحب الروح ناقلا عن الحوفی فیقال واللہ تعالیٰ اعلم واما نرینک بعض الذی نعدھم فذلک شافیک من اعدائک و دلیل صدقک واما نتوفینک قبل حلولہ بھم فلا لوم علیک ولا عتب ویکون قولہ تعالیٰ (فانما) الخ دلیلا علیھا۔ علمائے تفسیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ آیت شریف میں دو چیزوں کا ذکر ہے اول آنحضرت ﷺ کی زندگی میں مشرکین پر عذاب آجانا ‘ ان میں سے پہلی بات کا ظہور ہوا اور وہ اس طرح کہ غزوہ بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی اور انہوں نے ذلت اٹھائی پھر آنحضرت ﷺ کی زندگی میں مکہ معظمہ فتح ہوگیا اور اس وقت کے موجودہ مشرکین میں سے کچھ مقتول ہوئے اور اکثر نے اسلام قبول کیا۔
Top