Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں اور اللہ حکم فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں۔ اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔
پھر فرمایا (اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا) (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کی اطراف سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں) بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ کافروں کو اس سے عبرت ہونی چاہئے کہ اس زمین پر اہل ایمان کا اقتدار بڑھتا چلا جا رہا ہے ہر طرف اسلام پھیل رہا ہے اور جو لوگ بھی اسلام قبول کرلیتے ہیں ان کا علاقہ مسلمانوں کی عملداری میں داخل ہوجاتا ہے جو لوگ مجبور اور مظلوم تھے انہیں زمین کا اقتدار ملتا جا رہا ہے اور ظالمین اقتدار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں کافروں کی عملداری ہر طرف سے گھٹ رہی ہے یہ سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے ہے اس سے عبرت حاصل کریں۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ اور بعض دیگر حضرات سے آیت شریفہ کی یہی تفسیر منقول ہے پھر لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ ہم زمین کے اطراف کو ویران اور اس کے رہنے والوں کو ہلاک کرتے رہے ہیں ان لوگوں کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے انہیں اس بات کا کیسے اطمینان ہوگیا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہوگا۔ اللہ کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں : (وَ اللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ) (اور اللہ حکم فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں) (وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَاب) (اور وہ جلد حساب لینے والا ہے) اللہ تعالیٰ کا جب عذاب لانے کا فیصلہ ہوگا تو اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا وہ عنقریب ہی دنیا میں عذاب دے گا آخرت میں بھی حساب ہے وہاں کفر کی سزا ملے گی جو دنیاوی عذاب سے بڑھ چڑھ کر ہے
Top