Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور اللہ وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو، اور اے مخاطب تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اس میں پھاڑنے والی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو،
ششم : سمندر کی تسخیر کا تذکرہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے سمندر پیدا فرمائے اور بندوں کے لیے ان میں منافع رکھ دئیے ان میں سے چار انعامات کا تذکرہ فرمایا۔ اول تو یہ فرمایا کہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اس سے مچھلیاں مراد ہیں سمندر سے مچھلیاں نکالتے ہیں اور تازہ بتازہ بھون کر یا پکا کر کھالیتے ہیں، دوسرا فائدہ یہ بتایا کہ تم سمندر سے زیور نکالتے ہو، اس سے موتی مراد ہیں جو سمندر سے نکالے جاتے ہیں جس کا سورة رحمن میں ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ) تیسرے کشتیوں کا تذکرہ فرمایا کشتیاں چھوٹی ہوں یا بڑی، بادبانی کشتیاں ہوں، یا پٹرول سے چلنے والے بڑے جہاز ہوں یہ سب پانی کو پھاڑتے ہوئے سمندر میں سے گزر جاتے ہیں ان کشتوں کے ذریعہ سفر بھی طے ہوتا ہے ایک براعظم سے دوسرے براعظم پہنچ جاتے ہیں، یہ اسفار تجارت کے لیے بھی ہوتے ہیں اور تعلیم کے لیے بھی، کشتیوں کے ذریعے مال کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کا ذریعہ ہے، ایک براعظم کے لوگ دوسرے براعظم کی پیداوار کھاتے ہیں اور بھی دوسری استعمالی چیزیں برآمد کی جاتی ہیں اس کو (وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ ) میں بیان فرمایا اور ساتھ ہی (وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) بھی فرما دیا (اور تاکہ تم شکر ادا کرو) انسانوں میں شکر گزار کم ہوتے ہیں۔ خالق کائنات جل مجدہ کی پیدا کی ہوئی نعمتیں تو استعمال کرلیتے ہیں لیکن شکر کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس لیے بار بار شکر کی طرف توجہ دلائی ہے۔
Top