Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 105
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآئِهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّهِمْ : اپنا رب وَلِقَآئِهٖ : اور اس کی ملاقات فَحَبِطَتْ : پس اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل (جمع) فَلَا نُقِيْمُ : پس ہم قائم نہ کریں گے لَهُمْ : ان کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَزْنًا : کوئی وزن
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا سو ان کے اعمال حبط ہوگئے سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہ کریں گے
(اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ) (وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات یعنی قیامت کے دن کا انکار کیا سو ان کے اعمال حبط یعنی غارت ہوں گے ان پر انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ) (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا) (صحیح بخاری صفحہ 691 ج 2) حضرات علماء کرام نے اس کا ایک مطلب تو یہ بتایا ہے کہ ان لوگوں کی اللہ کے ہاں کوئی قدر و منزلت نہ ہوگی، اور بعض حضرات نے یہ مطلب بتایا ہے کہ ان کے لیے ترازو ہی نصب نہیں کی جائے گی۔ یعنی ان لوگوں کے اعمال تولے ہی نہیں جائیں گے اور کافر دوزخ میں بغیر حساب چلے جائیں گے، اعمال ان کے تولے جائیں گے جو کامل مومن تھے اور جو ریا کار اور منافق تھے، ان کے اعمال کے بارے میں مفسرین کے اقوال ہم سورة اعراف کی آیت (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ ) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں مراجعت کرلی جائے۔ حدیث شریف میں لفظ العظیم السمین وارد ہوا ہے اس کا ظاہری ترجمہ تو وہی ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ بڑے اور موٹے تازے لوگ آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا۔ اس میں جو لفظ العظیم ہے اس سے دنیاوی پوزیشن اور عہدہ اور مرتبہ مراد ہے بڑے بڑے عہدوں والے، بادشاہ صدر، مالدار، جائیداد والے، میدان قیامت میں آئیں گے وہاں ان کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگی۔ صدر صاحب دنیا سے سدھارے، منصف صاحب اپنی زندگی سے ہارے، وزیر صاحب چل بسے، لوگ کوٹھیوں پر جمع ہیں۔ نعش پر ہوائی جہاز سے پھول برسائے جا رہے ہیں۔ اخبارات میں سیاہ کلام چھپ رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیوی سے موت کی خبریں نشر ہو رہی ہیں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی موت بڑی قابل رشک ہے دنیا کا تو یہ حال ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ مرنے والا مومن ہے یا کافر، صالح ہے یا فاسق و فاجر، اگر کفر پر مرا ہے تو ہمیشہ کے لیے بڑے درد ناک عذاب میں جا رہا ہے۔ قیامت تک برزخ میں مبتلائے عذاب رہے گا۔ پھر قیامت کے دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا مصیبتوں میں مبتلا ہوگا۔ پھر دوزخ میں داخل ہوگا جس کی آگ دنیاوی آگ سے انہتر گنا زیادہ گرم ہے اس میں سے کبھی بھی نکلنا نہ ہوگا۔ بحکم (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا) اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا بھلا ایسے شخص کی موت وحیات کیسے قابل رشک ہوسکتی ہے ؟ یہ ہوائی جہازوں کے پھول برزخ کے مبتلائے عذاب کو کیا نفع دیں گے ؟ اور اخبارات کے اداریے نیز ٹیوی اور ریڈیو کے اعلانات کیا فائدہ مند ہوں گے ؟ خوب غور کرنے کی بات ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کو نہ مانا اس کی آیتوں کا انکار کیا قیامت کے دن کی حاضری کو جھٹلایا محض دنیا کی ترقیات اور مادی کامیابی کو بڑی معراج سمجھتے رہے یہ لوگ جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو کفر اور حب دنیا اور دنیا کی کوششیں ہی ان کے اعمال ناموں میں ہوں گی، وہاں یہ چیزیں بےوزن ہونگی اور دوزخ میں جانا پڑے گا۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی اور سمجھ لیں گے کہ سراسر ناکام رہے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین و کفار جو دنیا کی زندگی میں اپنے خیال میں نیک کام کرتے ہیں مثلاً پانی پلانے کی جگہ کا انتظام کرتے ہیں اور مجبور کی مدد کر گزرتے ہیں یا اللہ کے ناموں کے ورد رکھتے ہیں الیٰ غیر ذلک اس قسم کے کام نجات نہ دلائیں گے۔ ہندوؤں کے سادھو جو بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اور مجاہدہ کرکے نفس کو مارتے ہیں اور نصاریٰ کے راہب اور پادری جو نیکی کے خیال سے شادی نہیں کرتے ان کے تمام افعال بےسود ہیں آخرت میں کفر کی وجہ سے کچھ نہ پائیں گے۔ کافر کی نیکیاں مردود ہیں وہ قیامت کے روز نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوں گے۔ سورة ابراہیم میں ارشاد ہے (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ) یعنی کافروں کو اگر اپنی نجات کے متعلق یہ خیال ہو کہ ہمارے اعمال ہم کو نفع دیں گے تو اس کے متعلق سن لیں گے جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کی حالت ایسی ہے جیسے کچھ راکھ جسے تیز آندھی کے دن میں تیزی کے ساتھ ہوا اڑا لے جائے۔ (کہ اس صورت میں اس راکھ کا نام و نشان نہ رہے گا) اسی طرح ان لوگوں نے جو عمل کیے تھے ان کا کوئی حصہ ان کو حاصل نہ ہوگا (بلکہ راکھ کی طرح سب ضائع و برباد ہوجائیں گے اور کفر و معاصی ہی قیامت کے روز ساتھ ہوں گے) یہ بڑے دور دراز کی گمراہی ہے (کہ گمان تو یہ ہے کہ ہمارے عمل نافع ہوں گے اور پھر ضرورت کے وقت کچھ کام بھی نہ آئیں گے)
Top