Anwar-ul-Bayan - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم نہیں نازل ہوتے مگر آپ کے رب کے حکم سے اسی کے لیے ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے
حضرت رسول کریم ﷺ کے سوال فرمانے پر جبرائیل (علیہ السلام) کا جواب کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں سبب نزول کے بارے میں امام بخاری (رح) (ص 691 ج 2) نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا تمہیں اس سے کیا مانع ہے کہ ہمارے پاس جتنی مرتبہ آتے ہو اس سے زیادہ آیا کرو۔ اس پر آیت شریفہ (وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ) نازل ہوئی جس میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا جواب ذکر فرمایا انھوں نے جواب میں کہا کہ ہم خود نہیں آتے جب آپ کے رب کا حکم ہوتا ہے ہم اسی وقت آتے ہیں اور صاحب روح المعانی (ص 113 ج 12) میں کہتے ہیں کہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے قصہ اور روح کے بارے میں جو مشرکین نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا تھا اور آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ کل کو بتادوں گا پھر چند دن تک وحی نہیں آئی تو آپ کو بہت زیادہ رنج ہوا اور مشرکین بھی طعن کرنے لگے پھر جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) چند دن کے بعد تشریف لائے تو آپ نے فرمایا اے جبریل ! تم نے آنا بند کردیا اور میں تمہاری ملاقات کا مشتاق رہا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ مجھے بھی آپ کی ملاقات کا شوق تھا لیکن میں مامور بہ بندہ ہوں جب بھیجا جاتا ہوں نازل ہوجاتا ہوں اور جب روک دیا جاتا ہوں تو رک جاتا ہوں اس پر آیت بالا اور سورة والضحیٰ نازل ہوئی اور جبرائیل (علیہ السلام) کا جواب نقل فرمایا۔ ما بین ایدینا و ما خلفنا کا مطلب کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بات بتا کر کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے نازل ہوتے ہیں مزید یوں کہا (لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا) (اسی کے لیے ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے) یہ (لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا) کا لفظی ترجمہ ہے اس کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ ما بین ایدینا سے آنے والے زمانہ اور (وَ مَا خَلْفَنَا) سے گزشتہ زمانہ مراد ہے (مَا بَیْنَ ذٰلِک) سے زمانہ حال مراد ہے اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سارا زمانہ اور جو کچھ زمانہ میں ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے ہم جس وقت آتے ہیں اسی کے حکم سے اور جس وقت ہماری آمد رکی رہتی ہے اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ہمیں نازل ہونے کا حکم نہیں ہوتا، حضرت ابو العالیہ تابعی نے فرمایا کہ (مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا) سے پوری دنیا مراد ہے جو پہلی بار صور پھونکنے تک ہے اور (وَمَا خَلْفَنَا) سے آخرت مراد ہے اور (وما بین ذلک) سے نفخہ اولیٰ (پہلی بار صور پھونکنا اور نفخہ ثانیہ (دوسری بار صور پھونکا جانا) اور ان کا درمیانی وقفہ مراد ہے جو چالیس سال کا ہوگا اور ایک قول یہ ہے کہ (مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا) سے زمین اور (مَا خَلَقْنَا) سے آسمان مراد ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بعض حضرات نے زمان اور مکان مراد لیے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمان اور ہر مکان کا مالک ہے اسی کے حکم سے کسی جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا ہوتا ہے اور اسی کے حکم سے ہر زمانہ میں نزول اور عروج و دخول اور خروج اور منتقل ہونا اور آنا جانا ہوتا ہے۔ والمراد انہ تعالیٰ المالک لکل ذالک فلا ننتقل من مکان الی مکان ولا تنزل فی زمان دون زمان الا باذن عزوجل۔ (روح ص 114 ج 16) علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ 202 میں لکھتے ہیں کہ یہاں علم مقدر ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (وَ مَاکَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا) (اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے) اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور سارا ملک اسی کا ہے اس پر غفلت اور نسیان طاری نہیں ہوسکتا وہ آپ کی طرف سے اور آپ کی طرف وحی بھیجنے سے غافل نہیں ہے۔ وحی بھیجنے میں جو تاخیر فرمائی وہ حکمت کی وجہ سے تھی اس حکمت کو وہ جانتا ہے،
Top