Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور ملت ابراہیم سے وہی روگردانی کرے گا جس نے اپنے نفس کو احمق بنایا، اور بیشک ہم نے ان کو منتخب کرلیا دنیا میں، اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہیں
ملت ابراہیمی سے وہی اعراض کرے گا جو احمق ہو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و (علیہ السلام) کی ملت میں توحید الٰہی پر جینے اور مرنے کا حکم ہے اور شرک سے بیزاری ہے۔ ظاہری باطنی نظافت اور طہارت ہے، مہمانی ہے، قربانی ہے اللہ کی عبادت ہے اور فرمانبر داری ہے۔ انابت الی اللہ ہے صحیح انسانیت کی تعلیم ہے ان کی ملت کا اتباع کرنے کا رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا۔ سورة نحل میں ارشاد ہے۔ (ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم کی ملت کا اتباع کیجئے جو باطل دینوں کو چھوڑ کر حق ہی کی راہ پر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عمل اتمام کلمات اور ان کو لوگوں کا پیشوا بنانے کے اعلان، اور ان کے کعبہ بنانے اور قبولیت کی دعائیں کرنے اور اپنی نسل میں سے نبی آخر الزماں کی بعثت کی دعا مانگنے کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیمی سے وہی شخص بےرغبت ہوسکتا ہے اور ان کی ملت سے وہی رو گردانی کرسکتا ہے جو عقل سے کو را ہو اور جس نے اپنے نفس کو بالکل ہی احمق بنا دیا ہو، کوئی سلیم الفطرت عقل مند انسان ان کی ملت سے انکاری نہیں ہوسکتا۔ ملت ابراہیمی اس وقت ملت محمدیہ میں منحصر ہے اور آنحضرت سرور عالم ﷺ ہی اس کے داعی ہیں۔ جو لوگ اس سے بیزار ہیں وہ لوگ مشرک، بت پرست، بےحیا، بےشرم، بداخلاق، بداعمال، دھوکے باز اور زمین میں فساد کرنے والے اور قوموں کو لڑانے والے ہیں اور جس قدر بھی دنیا میں قبائح اور خراب کام ہیں سب انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو ملت ابراہیم سے ہٹے ہوئے ہیں (گو کمزور ایمان والے مسلمانوں میں بھی معاصی ہیں لیکن اول تو انہیں گناہ سمجھتے ہوئے کرتے ہیں اور دوسرے توبہ کرتے رہتے ہیں اور ہر حال میں گناہ بھی حماقت ہی سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة نساء میں فرمایا (اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَھَالَۃٍ ) (الایہ) مسلمین اہل المعاصی کی حماقت ان لوگوں کی حماقت سے بہت زیادہ کم ہے جو کفر و شرک پر جمے ہوئے ہیں اور ملت ابراہیمی کو قبول کرنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ یہ بتانے کے بعد کہ ابراہیم کی ملت سے وہی رو گردانی کریگا جس نے اپنی جان کو بیوقوف بنادیاہو یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو دنیا میں چن لیا اور برگزیدہ بنالیا۔ دنیا میں ان کی فضیلت اور برتری سب پر ظاہر ہے سب قومیں ان کی فضیلت کی قائل ہیں اور ان کے بعد جو بھی کوئی نبی آیا ہے انہیں کی نسل اور ذریت میں سے آیا ہے اور سب ان کو مانتے ہیں اور ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کو دشمن نے آگ میں ڈالا، اللہ تعالیٰ نے وہ آگ ان کے لیے گلزار بنا دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کعبہ تعمیر کرایا اس وقت سے لے کر آج تک کعبہ شریف کا حج ہوتا ہے۔ اور ان کو جو مناسک حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتائے تھے۔ ان پر برابر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے جو بیٹے کی قربانی کی تھی اس قربانی کے اتباع میں کروڑوں قربانیاں ہر سال پورے عالم میں ہوتی ہیں۔ درود ابراہیمی میں ان کا ذکر ہے۔ امت محمدیہ جس کا نام انہوں نے مسلمین رکھا تھا (کمافی سورة الحج) وہ ان کی ملت کی اتباع کرنے والی ہے اور ان کی یاد گار ہے۔ پھر فرمایا : (وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوں گے) ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ وہ ثابت قدم صاحب استقامت اور خیر اور صلاح سے متصف ہونے والوں میں شمار ہوں گے۔ وہاں بھی ان کی رفعت ہوگی جیسا کہ دنیا میں ان کی فضیلت مشہور و معروف ہوئی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : (ای المشھودلھم باثبات علی الاستقامۃ والخیر والصلاح) اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں : و ذلک من حیث المعنی دلیل مبین لکون الراغب عن ملۃ ابراھیم سفیھا اذ الاصطفاء والعز فی الدنیا غایۃ المطالب الدنیویۃ والصلاح جامع للکمالات الاخرویۃ ولا مقصد للانسان الغیر السفیہ سوی خیر الدارین یعنی ان کی خیر و صلاح اور ثبات علی الاستقامتہ میں اس امر کی واضح دلیل ہے کہ جو شخص ملت ابراہیمی سے منحرف ہوا وہ واقعی بیوقوف ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ بننا اور معزز ہونا دنیاوی مطلوبات کا آخری مقام ہے اور صلاح کمالات اخرویہ کو جامع ہے اور سمجھ دار آدمی کے لیے دونوں جہان کی خیر سے بڑھ کر کوئی مقصد نہیں (نا سمجھ یعنی بیوقوف ہی ان مقاصد عالیہ سے منحرف ہوسکتا ہے) ۔
Top