Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اے ہمارے رب اور بھیج دے ان میں ایک رسول ان میں سے، جو تلاوت کرے ان پر تیری آیات، اور سکھائے ان کو کتاب اور حکمت، اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو ہی عزیز ہے حکیم ہے۔
اہل مکہ میں سے ایک رسول بھیجنے کی درخواست اور اس کی مقبولیت اس آیت میں بھی حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی دعا کا تذکرہ ہے کعبہ شریف بناتے ہوئے جو دعائیں ان دونوں حضرات نے کی تھیں ان میں سے ایک یہ دعا بھی ہے کہ اے ہمارے رب ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما۔ اس رسول سے خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں جو عربی بھی تھے اور مکی بھی اور حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں کی نسل میں سے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے بھی انبیاء (علیہ السلام) مبعوث ہوئے سب انہی کی نسل میں سے تھے۔ اور حضرت سرورعالم خاتم النّبیین ﷺ کے علاوہ سب بنی اسحاق تھے اور صرف آپ ہی بنی اسماعیل میں سے ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے ص 183 ج 1 مسند امام احمد سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابو امامہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کا ابتدائی تذکرہ اولاً کیسے شروع ہوا آپ نے فرمایا کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں اور میری والدہ نے جو خواب دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس نے شام کے محلات کو روشن کردیا۔ میں اس خواب کا مظہر ہوں یہ حدیث صاحب مشکوٰۃ نے بھی ص 513 شرح السنہ سے نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ میں اپنی والدہ کے خواب کا مظہر ہوں جنہوں نے وضع حمل کے وقت دیکھا تھا ان کے لیے ایک نور روشن ہوا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے) ۔ ...... حدیث نقل کرکے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مطلب یہ کہ سب سے پہلے جنہوں نے میرا تذکرہ کیا اور لوگوں میں مجھے مشہور کیا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ تذکرہ دعا کی صورت میں تھا۔ ذکر مشہور ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے جو آخری نبی تھے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انہوں نے آپ کا نام لیکر بشارت دی اور بنی اسرائیل کو خطاب کرکے فرمایا (یَا بَنِیْ اِِسْرَآءِیْلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ ) (کہ اے بنی اسرائیل بلاشبہ میں تمہاری طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں۔ تمہارے سامنے جو توراۃ ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور ایک ایسے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ ) زمانہ حمل میں آپ کی والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا جس کی وجہ سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ انہوں نے اپنا خواب اپنی قوم کو سنایا۔ جو لوگوں میں مشہور ہوگیا اور یہ آپ کی تشریف آوری کے لیے ایک بہت بڑی تمہید تھی۔ آخر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی مبعوث فرمایا جس کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے جن کی بشارت دی تھی۔ آپ کا نام احمد بھی ہے اور محمد بھی۔ آپ پر اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت ختم فرما دی اور سارے عالم کے انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک آپ کو نبی اور رسول بنا کر بھیج دیا اور سورة احزاب میں آپ کے خاتم النّبیین ہونے کا اعلان فرما دیا۔ اور آپ نے لا نبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) اور ختم بی النبیون (مجھ پر نبیوں کی آمد ختم ہوگئی) اور ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی۔ 1 ؂ (سنن ترمذی) اعلان فرمایا۔ آپ کی نبوت اور رسالت عامہ کا اعلان فرمانے کے لیے سورة اعراف میں یوں ارشاد فرمایا (قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا) (آپ فرما دیجیے کہ اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں) ۔ جس رسول کے آنے کی دعا کی اس کی صفات : حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے اپنی نسل میں سے جس رسول کے مبعوث ہونے کے لیے دعا کی تھی اس کی صفات میں (یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ ) اور (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ) فرمایا تھا۔ سورة آل عمران (ع 18) میں بھی آپ کی یہ صفات مذکور ہیں اور سورة جمعہ میں بھی آپ کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد فرمائے تھے۔ آپ نے ان کو پوری طرح سے انجام دیا۔ تلاوت کتاب : رسول اللہ ﷺ کے مقاصد بعثت میں سورة بقرہ میں اول تو یہ فرمایا کہ (یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ ) کہ وہ نبی لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام بھی ہے اور اللہ کی کتاب بھی اس کے الفاظ کا پڑھنا، پڑھانا اور سننا اور سنانا تلاوت کرنا صحیح طریقہ پر ادا کرنا بھی مطلوب اور مقصود ہے۔ بہت سے جاہل جو تلاوت کا انکار کرتے ہیں اور بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طوطے کی طرح رٹنے سے کیا فائدہ ؟ یہ لوگ کلام الٰہی کا مرتبہ اور مقام نہیں سمجھتے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کو لوگوں کے آپس کے خطوط پر اور انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں پر قیاس کرتے ہیں اور اپنی جہالت سے یوں کہتے ہیں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کا سمجھنا کافی ہے۔ اس کا پڑھنا اور یاد کرنا ضروری نہیں (العیاذ باللہ) یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ قرآن مجید کے الفاظ کو محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے۔ صحیفوں پر اعتماد کئے بغیر سینوں میں یاد رکھنا لازم ہے تاکہ اگر مطبوعہ مصاحف (العیاذ باللہ) معدوم ہوجائیں تب بھی قرآن شریف 1 ؂ بلاشبہ نبوت ختم ہوگئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی ہے۔ اپنی تمام قراءتوں کے ساتھ محفوظ رہ سکے۔ تلاوت قرآن کے فضائل : نیز قرآن مجید کی تلاوت میں بہت بڑا ثواب ہے، سمجھ کر پڑھے یا بےسمجھے پڑھے۔ تلاوت پر اجر عظیم ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رب تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جسے قرآن نے میرے ذکر سے اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کرلیا میں اسے اس سے افضل عطیہ دوں گا جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور کلام اللہ کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے۔ (رواہ التر مذی و قال حدیث حسن) اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس گنی ہو کر ملتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ا آم ایک حرف ہے (بلکہ) الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے (صرف الم کا تلفظ کرنے سے تیس نیکیاں مل جائیں گی) ۔ (رواہ الترمذی وقال حسن صحیح) معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کو طوطے کی طرح رٹنے سے تشبیہ دینا سخت گمراہی ہے۔ جس کی تلاوت کرنے سے ہر حرف پر ایک نیکی ملتی ہو اور ہر نیکی کی دس نیکیاں بن جاتی ہوں اس کی تلاوت طوطے کی طرح رٹا لگانے کے برابر کیسے ہوئی۔ در حقیقت قرآن کی تلاوت مستقل کام ہے اس کے الفاظ کو محفوظ رکھنا مستقل ذمہ داری ہے اور اس کی تفسیر کو صحابہ اور تابعین کے طریقے پر محفوظ رکھنا اور بیان کرنا مستقل کام ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو سمجھنا اور اس سے احکام کا استنباط کرنا مستقل عمل ہے۔ یہ سب چیزیں ضروری ہیں امت ان کی مکلف ہے۔ جو لوگ اس پر زور دیتے ہیں کہ الفاظ کے پڑھنے اور یاد رکھنے کی ضرورت نہیں یہ لوگ نصارٰی اور یہود سے بھی عبرت نہیں لیتے ان لوگوں نے اپنی کتابوں کے الفاظ کو محفوظ نہ رکھا تو اپنی کتابوں سے محروم ہوگئے۔ ان کی کتابوں کے ترجمے تو دنیا کی زبانوں میں ملتے ہیں مگر اصل کتاب مفقود ہے۔ ترجمہ صحیح ہے یا غلط اس کے جانچنے کے لیے ان کے پاس اصل کتاب نہیں ہے اور یہیں سے ان کے یہاں تحریف کا راستہ بھی نکل آیا۔ جب اصل کتاب موجود نہیں تو جس کا جو جی چاہے ترجمہ کرسکتا ہے۔ مسجد نبوی ﷺ میں ایک صاحب سے احقر کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچہ کو قرآن مجید حفظ کرنے میں لگایا ہے لیکن میرے ایک استاد آئے تھے انہوں نے کہا کہ اب قرآن حفظ کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ قرآن مجید کمپیوٹر میں آگیا ہے۔ احقر نے ان سے کہا کہ تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لیے کیا کمپیوٹر محرابوں میں رکھ دیا جائے گا ؟ اور دنیا بھر کے دیہاتوں میں ایک ایک گاؤں میں پانچ چھ سات مسجدیں ہیں کیا گاؤں والے ہر مسجد کے لیے کمپیوٹر خریدیں گے اور کمپیوٹر سیکھنے کے لیے اپنے دیہاتی آدمیوں کو سکھانے والوں کے پاس بھیجیں گے ؟ حفظ کی ضرورت صرف اسی لیے نہیں ہے کہ یہ معلوم کرلیا جائے کہ فلانی آیت کس سورت میں ہے اور پوری آیت کس طرح سے ہے۔ قرآن کا تلاوت کرنا اور سننا اور سنانا اپنی زبان اور کانوں کو اس میں مشغول رکھنا بہت بڑا عمل صالح ہے جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ قرآن مجید اور حدیث شریف کو نہیں جانتے اور ایمانی تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں وہ مشرکین اور یہود و نصارٰی کی باتوں سے متاثر ہو کر الفاظ قرآنیہ سے محروم ہونے کا سبق دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایمانی سمجھ دے اور اہل شر کے شر سے بچائے۔ کتاب اور حکمت کی تعلیم : رسول اللہ ﷺ کا دوسرا کام ذکر کرتے ہوئے (وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ) ارشاد فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فریضہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی کتاب کی تعلیم دیں۔ کتاب اللہ کے الفاظ بھی سکھائیں اور معانی بھی سمجھائیں۔ عربی زبان جاننا قرآن کے سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر وہی معتبر ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بتائی اور جو حضرات صحابہ کرام نے سیکھی پھر ان سے تابعین اور تبع تابعین اور سلف صالحین سے ہوتے ہوئے امت تک پہنچی۔ سورة نحل میں فرمایا (اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ) (اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ بیان کریں جو ان کی طرف تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا) آج کل بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تھوڑی بہت عربی جان کر قرآن شریف کے معانی اور مفاہیم اپنی طرف سے بتانے لگے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تفسیر سے بےنیاز ہو کر گمراہ ہو رہے ہیں اور گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جہالت اور گمراہی سے کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا خط ہے۔ جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور رسول کی حیثیت محض ایک ڈاکیے کی ہے۔ ڈاکیے کا کام خط پہنچا دینا ہے۔ خط پڑھ کر سنانا، سمجھانا اس کا کام نہیں۔ قرآن مجید نے تو اپنے بارے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ یہ اللہ کا خط ہے جو مخلوق کی طرف آیا ہے اس کو خود ہی سمجھ لینا اور اس کے لانے والے سے مت سمجھنا، بلکہ قرآن نے تو رسول اللہ ﷺ کے فرائض میں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا بتایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو درمیان سے نکال کر قرآن سمجھنا کفر کی دعوت اور اشاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مرحومہ کو ان لوگوں کے فریب سے محفوظ فرمائے۔ آیت شریفہ میں الکتاب اور الحکمۃ دو لفظ مذکور ہیں اور دونوں کی تعلیم دینا رسول اللہ ﷺ کے منصب رسالت کے فرائض میں شمار فرمایا ہے۔ مفسر بغوی معالم التنزیل ص 116 ج 1 میں لکھتے ہیں کہ الکتاب سے قرآن مجید مراد ہے اور الحکمت سے مجاہد کی تفسیر کے مطابق فہم القرآن مراد ہے اور بعض حضرات نے اس سے احکام قضا مراد لئے ہیں۔ اور بعض حضرات نے حکمت کی تفسیر العلم والعمل سے کی ہے۔ صاحب روح المعانی نے ص 387 ج 1 بعض مفسرین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ الحکمۃ سے کتاب اللہ کے حقائق و دقائق اور وہ سب چیزیں مراد ہیں جن پر قرآن مجید مشتمل ہے اس صورت میں تعلیم کتاب سے مراد اس کے الفاظ کا سمجھنا اور اس کی کیفیت ادا بیان کرنا مراد ہے اور تعلیم الحکمۃ سے اس کے معانی اور اسرار اور جو کچھ اس میں ہے اس سے واقف کرانا مراد ہے اور بعض حضرات نے حکمت کی تفسیر یوں کی ہے۔ ما تکمل بہ النفوس من المعارف والاحکام یعنی وہ تمام معارف اور احکام جن سے نفوس کی تکمیل ہوتی ہے۔ حکمت سے وہ سب مراد ہیں۔ درحقیقت حکمت کے جو معانی حضرات مفسرین نے بتائے ہیں وہ ایک دوسرے کے معارض اور منافی نہیں ہیں مجموعی حیثیت سے ان سب کو مراد لیا جاسکتا ہے۔ تزکیہ نفوس : رسول اللہ ﷺ کا تیسرا فرض منصبی وَ یُزَکِّیْھِمْ بیان فرمایا۔ لفظ یُزَکِّیْ تزکیہ سے مضارع کا صیغہ ہے۔ تزکیہ لغت میں پاک صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا کام صرف کتاب اللہ کا پڑھا دینا اور سمجھا دینا ہی نہیں دیا تھا بلکہ نفوس کا تزکیہ بھی آپ کے فرض منصبی میں داخل تھا۔ (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ) میں تحلیۃ النفوس بالفضائل اور یُزَکِّیْھِمْ میں تخلیۃ النفوس عن الرزائل کا ذکر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو توحید خداوندی سے آراستہ کیا اور کفر اور شرک کی نجاست سے پاک کیا۔ ایمان اور یقین دیا۔ شک سے بچایا۔ گناہوں کی گندگی سے دور کیا۔ نفوس کے رزائل دور کئے۔ اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ بتائے اور عمل کرکے دکھایا۔ گناہوں کی تفصیل بتائی ان کے اثرات ظاہرہ باطنہ دنیویہ اخرویہ سے باخبر فرمایا۔ نیکیوں کی تفصیلی فہرست بتائی اور ان کے منافع دنیویہ واخرویہ سے مطلع کر فرمایا۔ حسد، بخل، کینہ، تکبر، حرص، لالچ، حب جاہ کی مذمت فرمائی۔ حب فی اللہ اور تواضع اور فروتنی، صلہ رحمی، سخاوت، ضعیف کی مدد، بڑوں کی خدمت، یتیم کے ساتھ رحمدلی، تقویٰ ، اخلاص، اکرام اہل ایمان، نرمی، حسن الجور، غصہ پی جانا وغیرہ وغیرہ کی تعلیم دی۔ انسان کو انسان بنایا حیوانیت اور بہیمیت سے بچایا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بعثت لاتمم حسن الاخلاق (کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں) رواہ مالک فی الموطا۔ نفوس کا تزکیہ صرف زبانی طور پر بتادینے سے نہیں ہوجاتا اس کے لیے صحبت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کے لیے انسانوں ہی میں سے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے تاکہ وہ عملی طور پر ان کا تزکیہ کرسکیں اور تاکہ ان کی صحبت سے انسانوں کے نفوس خیر کی طرف پلٹ سکیں اور اعمال صالحہ کے خوگر ہوجائیں اور نفوس کی شرارتوں کو سمجھ سکیں اور ان سے بچ سکیں۔ سورة توبہ میں ارشاد ہے (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) (اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ! اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) اس آیت شریفہ میں سچوں کے ساتھ ہونے کی تعلیم فرمائی ہے جو لوگ اپنے اخلاص اور عمل میں سچے ہیں ان کے ساتھ رہنے سے طبیعت اعمال صالحہ کی طرف راغب ہوتی ہے اور نفس و شیطان کی مکاریوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے پھر ان کا توڑ بھی سمجھ میں آجاتا ہے جس کسی کی صحبت اختیار کرے پہلے دیکھ لے کہ وہ متبع سنت ہے یا نہیں ؟ اس میں فکر آخرت کتنی ہے ؟ اور حب دنیا اور جلب زر کے لیے تو مرشد بن کر نہیں بیٹھا جس کسی کو متبع سنت اور آخرت کا فکر مند پائے اس کی صحبت اٹھائے، مال و جاہ کا حریص مصلح اور مرشد نہیں ہوسکتا اس کی صحبت میں رہنا زہر قاتل ہے۔
Top