Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 171
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً١ؕ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَثَلُ : اور مثال الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا كَمَثَلِ : مانند حالت الَّذِيْ : وہ جو يَنْعِقُ :پکارتا ہے بِمَا : اس کو جو لَا يَسْمَعُ : نہیں سنتا اِلَّا : سوائے دُعَآءً : پکارنا وَّنِدَآءً : اور چلانا صُمٌّۢ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : پس وہ لَا يَعْقِلُوْنَ : پس وہ نہیں سمجھتے
اور مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اس شخص کی مثال ہے جو آواز دے ایسی چیز کو جو نہ سنے سوائے پکار کے اور بلاوے کے، بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں سو وہ سمجھ نہیں رکھتے۔
کافروں کی ایک مثال صاحب روح المعانی ص 48 ج 2 لکھتے ہیں کہ مشبہ یا مشبہ بہ کی جانب میں مضاف محذوف ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ کافروں کو دعوت دینے والے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ان جانوروں کے پیچھے چیخ رہا ہو جو بس پکار اور آواز سنتے ہیں اور اس سے زیادہ کوئی بات وہ نہیں سمجھتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی نے آواز دی لیکن کیا کہا اس کو بالکل نہیں سمجھتے اور دوسری صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ کافروں کی مثال اس شخص کے جانوروں کی طرح ہے جو اپنے جانوروں کو پکارتا اور چیختا چلاتا ہے اور جانوروں کو پکار کے سوا کچھ خبر نہیں۔ (خلاصہ مطلب دونوں صورتوں میں یہ ہے کہ کافر لوگ اپنی جہالت اور حماقت سے باپ دادوں کی تقلید میں لگے ہوئے ہیں حق سمجھنے اور قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس بارے میں وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ حق کی آواز سنتے ہیں لیکن سب سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ نہ ادھر اپنے ذہنوں کو متوجہ کرتے ہیں اور نہ غور و فکر کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ بالکل جانوروں کی طرح سے ہیں۔ آواز تو سنی لیکن سمجھتے کچھ نہیں۔ کافر بہرے، گونگے، اندھے ہیں : پھر فرمایا (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) کہ یہ لوگ حق سننے کو تیار نہیں بہرے بنے ہوئے ہیں، حق بولنے کو تیار نہیں گونگے بنے ہوئے ہیں۔ راہ حق پر چلنے کو تیار نہیں۔ اندھا پن اختیار کیے ہیں، اپنے حواس کھو چکے ہیں۔ لہٰذا حق کو ذرا بھی نہیں سمجھتے۔
Top