Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی وہ تم کو سخت ترین تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔
مصر میں بنی اسرائیل کی مظلومیت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے ایک بہت بڑے انعام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ پہلے گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام قبیلے مصر میں رہتے تھے۔ غیر ملکی ہونے کی وجہ سے مصر کے لوگ (فرعون اور فرعون کی قوم) ان پر بری طرح مسلط تھے، ان کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر تھی، ان سے بڑی بڑی بیگاریں لیتے تھے اور ایسی بدترین غلامی میں بنی اسرائیل مبتلا تھے کہ مصری لوگ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتے تھے تو یہ ذرا چوں بھی نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں پیدا فرمایا، پھر ان کو اور ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی، فرعون سے ان کا مقابلہ اور مناظرہ ہوا، فرعون نے مقابلہ کے لیے جادو گر بلائے معجزہ کے سامنے وہ لوگ نہ ٹھہر سکے اور اپنی ہار مان کر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کی وجہ سے بنی اسرائیل پر فرعون اور اس کی قوم کی اور زیادہ سختیاں بڑھ گئیں۔ اللہ جل شانہٗ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل کھڑے ہو اور راتوں رات روانہ ہوجاؤ۔ چناچہ یہ لوگ ملک مصر سے نکل اور فرعون اور اس کے لشکروں سے نجات پائی۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ یہ لوگ مصر میں چار سو سال سے رہ رہے تھے۔ عرصہ دراز کی بد ترین غلامی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ آیت کے آخیر میں جو بَلَاءٌ ہے اس کے دو معنی مفسرین نے لکھے ہیں۔ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کو بھی بلاء کہتے ہیں۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو ترجمہ اور مطلب یہ ہوگا کہ تم ایسی سخت تکلیفوں میں مبتلا تھے اس میں تم بڑے امتحان میں تھے، اور بَلَاءٌ کا دوسرا معنی انعام کا ہے اگر یہ معنی لیے جائیں تو ترجمہ اور مطلب یہ ہوگا کہ ایسی تکلیفوں سے اور غلامی سے نجات دینے میں تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے لڑکوں کو کیوں ذبح کرتے تھے اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے خواب میں دیکھا تھا یا اسے کاہنوں نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیرے ملک کو ختم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ جل شانہٗ کی قضا و قدر غالب آئی، ان کی تدبیریوں ہی دھری رہ گئی، خدا جانے کتنے لڑکوں کو قتل کردیا۔ اسی زمانہء قتل میں موسیٰ (علیہ السلام) پیدا بھی ہوئے، پلے بڑھے جوان ہوئے اور فرعون ہی کے محل میں پرورش پائی پھر اس کی اور اس کی حکومت کی تباہی کا ذریعہ بنے۔
Top